اگست 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے چار سال بعد، افغان خواتین دنیا کے سب سے سخت گیر جبر کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کی تنظیم یو این ویمن کی تازہ رپورٹ کے مطابق، طالبان نے خواتین کی تعلیم، روزگار اور عوامی زندگی میں شرکت پر عائد کردہ ایک بھی پابندی واپس نہیں لی، جو اب ایک مستقل پالیسی اور تاریک نیا معمول بن چکی ہے۔
"طالبان نے ہمارے لیے روزگار کے دروازے بند کر دیے ہیں۔ چاہے ہم کتنی ہی تعلیم یافتہ کیوں نہ ہوں، وہ کبھی بھی افغان لڑکیوں اور خواتین کے لیے ان دروازوں کو دوبارہ نہیں کھولیں گے۔”
کابل کی ایک پوسٹ گریجویٹ طالبہ کے یہ الفاظ اُس نسل کی مایوسی کو ظاہر کرتے ہیں جس کا مستقبل چھین لیا گیا ہے۔ اگست 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے چار سال بعد بھی افغان خواتین دنیا کے سب سے سخت گیر جبر کا شکار ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی تنظیم یو این ویمن کی تازہ رپورٹ "طالبان کے چار سال: جب افغان خواتین نے پابندیوں کے باوجود مزاحمت کی” کے مطابق، خواتین کی آزادی پر عائد ایک بھی حکم واپس نہیں لیا گیا۔ جو اقدامات عارضی کہلائے جاتے تھے، وہ اب مستقل پالیسی بن چکے ہیں ایک تاریک "نیا معمول” جہاں خواتین کی تعلیم، ملازمت، اور عوامی زندگی میں شرکت تقریباً ختم کر دی گئی ہے۔
رپورٹ اس بات پر زور دیتی ہے کہ 2024 کا "امر بالمعروف و نہی عن المنکر” قانون جنس پر مبنی امتیاز کو ادارہ جاتی شکل دے چکا ہے جس سے پابندیاں مزید منظم اور ناقابلِ چیلنج ہو گئی ہیں۔ تعلیم اور روزگار پر پابندیوں نے 18 سے 30 سال کی تقریباً 80 فیصد افغان خواتین کو تعلیمی اداروں اور ملازمتوں سے محروم کر دیا ہے۔ خواتین کی نقل و حرکت کو محرم کے قانون کے ذریعے محدود کر دیا گیا ہے جبکہ نگرانی کے پھیلتے ہوئے جال نے خوف اور گھٹن کو مزید بڑھا دیا ہے۔
اس تاریک منظرنامے کے باوجود یو این ویمن کی رپورٹ افغان خواتین کی استقامت اور مزاحمت کو اجاگر کرتی ہے۔ مختلف صوبوں میں خواتین غیر رسمی اسکولوں میں تدریس کر رہی ہیں، گھریلو کاروبار چلا رہی ہیں اور خفیہ نیٹ ورکس کے ذریعے حقوق کے لیے آواز اٹھا رہی ہیں۔ خواتین امدادی کارکن اور صحت کے شعبے میں کام کرنے والی "خاموش زندگی کی ڈور” کہلاتی ہیں جو خفیہ طور پر اپنی برادریوں کو سہارا دے رہی ہیں۔
تاہم، خواتین کی قیادت میں چلنے والی تنظیموں کے لیے فنڈنگ میں کمی بحران کو مزید بڑھا رہی ہے۔ یہ تنظیمیں جو کبھی تعلیم، قانونی امداد اور ذہنی صحت کے لیے اہم پناہ گاہیں تھیں وسائل کی کمی اور طالبان کے دباؤ کی وجہ سے بند ہو رہی ہیں۔ جبری پناہ گزین واپسیوں کے باعث صورتحال مزید سنگین ہو رہی ہے خاص طور پر ان خواتین کے لیے جو اپنے گھر، روزگار اور تحفظ سب کچھ کھو چکی ہیں۔
خبر کدہ کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں قندی صافی جو خواتین کے حقوق کی کارکن اور جو "دا واک تحریک” کی سربراہ ہیں نے طالبان اور عالمی برادری دونوں کی سخت مذمت کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ
"طالبان نے قطر میں وعدہ کیا تھا کہ وہ خواتین پر پابندیاں نہیں لگائیں گے مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ دوحہ معاہدے کی بنیادی شقیں افغانستان میں کبھی نافذ نہیں کی گئیں۔ اس کے بجائے طالبان خواتین پر منظم اور بڑھتی ہوئی پابندیاں عائد کر رہے ہیں۔ امریکہ اور بین الاقوامی تنظیمیں صرف تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ انہوں نے افغان خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا — بس بیانات جاری کیے ہیں، عملی اقدامات نہیں۔”
ان کے یہ خیالات ان درجنوں خواتین کارکنان کی آواز ہیں جو سمجھتی ہیں کہ عالمی برادری علامتی مذمت سے آگے نہیں بڑھی۔ صرف بیانات اور اجلاسوں سے کچھ حاصل نہیں ہوا، جبکہ افغان خواتین کی آزادی روز بروز ختم ہوتی جا رہی ہے۔
یو این ویمن کی رپورٹ عالمی برادری سے فوری اور مضبوط اقدامات کا مطالبہ کرتی ہے کہ وہ خواتین کی تنظیموں کے لیے پائیدار اور لچکدار مالی امداد فراہم کی جائے، تمام امداد کا کم از کم 30 فیصد حصہ براہِ راست صنفی مساوات کے منصوبوں کو دیا جائے اور خواتین کے حقوق کو افغانستان میں ہر انسانی اور سیاسی مداخلت کا مرکزی حصہ بنایا جائے۔