وادی تیراہ اور باجوڑ میں شدت پسندوں کے ساتھ جرگے کیوں ناکام ہوئے ۔۔۔؟

“گزشتہ دو دہائیوں میں دہشت گردی نے ہمارے علاقوں کو بہت نقصان پہنچایا ہے، ہمارے مشران اور عمائدین مارے گئے، ہم نے مہاجرین کی زندگی گزاری۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ اس بدامنی کا خاتمہ ہو”

یہ وہ جذبات ہیں جن کا اظہار ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے عمائدین پر مشتمل اس جرگے ایک رکن نے خبر کدہ سے خصوصی گفتگو میں کیا جو کہ اس وقت وادی تیراہ میں افغان شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہے اور جمعرات کے روز پاکستانی سیکیورٹی حکام سے مالاقات کے بعد اس جرگے نے مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے دس روز کا وقت مانگا ہے۔ خبر کدہ نے حالیہ مہینوں میں شدت پسند عناصر کے ساتھ ہونے والے جرگوں کی اصل ناکامی جاننے کے کیے ان مختلف علاقوں میں جرگہ عمائدین اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کا موقف جاننے کی کوشش کی ہے جہاں پر مقامی آبادی اب کالعدم تحریک طالبان کی کارروائیوں سے تنگ آ چکی ہے اور ان سے چھٹکارا چاہتی ہے۔

وادی تیراہ: دہشت گرد کیا چاہتے ہیں ؟

رواں سال جولائی میں بھی تیراہ بر قمبر خیل کے علاقے میں مقامی لوگوں نے مسلح گروہوں کے ساتھ افغانستان میں مذاکرات کیے تھے تاکہ انہیں علاقے میں آپریشنز سے روکا جا سکے۔ اس وقت جرگہ کے ارکان نے دعویٰ کیا تھا کہ مسلح گروہوں نے ان کے مطالبات مان لیے ہیں، لیکن مقامی سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ علاقے میں اب بھی مسلح افراد موجود ہیں اور وہ وقتاً فوقتاً سیکیورٹی فورسز کے قافلوں اور اہلکاروں پر حملے کرتے ہیں۔

باجوڑ : مزاکرات میں ناکامی کا ذمہ دار کون ؟


باجوڑ میں 27 جولائی کو تین دن کے کرفیو کا اعلان کیا گیا تھا اور 16 گاؤں میں کرفیو نافذ کیا گیا۔ سیکیورٹی فورسز کے مطابق، افغانستان کی سرحد کے قریب گاؤں میں بڑی تعداد میں دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاعات اور تارگٹ کلنگ میں اضافے کے بعد، انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر علاقے میں آپریشنز کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ تاہم کرفیو کے دو دن بعد مقامی لوگوں نے احتجاج شروع کر دیا اور لوگوں کے بے گھر ھونے کے خلاف آوازیں اٹھائی۔ حکومتی حکام اور مقامی عمائدین نے اس وقت مسلح گروہوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے 50 رکنی جرگہ تشکیل دیا لیکن یہ مذاکرات کسی نتیجے کے بغیر ختم ہو گئے۔

جرگہ میں شامل ایک رکن عبیداللہ نے خبرکدہ کو بتایا کہ جرگہ کے ارکان نے مسلح گروہوں سے صرف دو بنیادی مطالبات کیے کہ آپ (مسلح گروہ) افغانستان واپس چلے جائیں یا آبادی سے باہر نکل جائیں۔
"جرگہ کی یہ کوشش بھی تھی کہ مسلح گروہ سرنڈر کر جائیں اور جیسے دوسرے لوگ سیاسی جدوجہد کے ذریعے اپنی بات کرتے ہیں اور معاشرے میں زندگی گزارتے ہیں، اسی طرح ان کی زندگی بھی گزرے۔”
عبید اللہ نے بتایا کہ مسلح گروہوں نے مطالبہ کیا کہ مالاکنڈ تک کا علاقہ انہیں دے دیا جائے اور ہتھیار ساتھ لے کر چلنے کی اجازت دی جائے۔ عبیداللہ نے مزید کہا کہ ایک موقع پر یہ بات بھی سامنے آئی کہ مسلح گروہوں کو افغانستان سے ایسے پیغامات آ رہے تھے کہ "آپ کو ہم نے مذاکرات کے لیے نہیں بلکہ جنگ کے لیے بھیجا ہے،” لہٰذا یہ مذاکرات ناکام ہو گئے۔

مذاکرات کی ناکامی کے بعد کیا صورتحال ہے؟

پاکستانی عسکری فورسز نے خفیہ معلومات کی بنیاد پر باجوڑ کے مختلف علاقوں میں آپریشن کیے اور اب انہوں نے زیادہ تر گاؤں کو مسلح افراد سے پاک کر دیا ہے۔
مذاکرات کی ناکامی کے بعد عام

عوام مسلح گروہوں کو کس نظر سے دیکھتی ہے؟


مقامی لوگ کہتے ہیں کہ عسکری کارروائیوں سے بچنے اور ماضی کی طرح کے نقصانات سے محفوظ رہنے کے لیے وہ چاہتے ہیں کہ علاقے سے مسلح گروہوں کا خاتمہ ہو اور امن قائم ہو لیکن مسلح گروہوں کی موجودگی امن قائم نہیں ہونے دیتی۔
باجوڑ سلارزو کے ایک مقامی مشر اور باجوڑ جرگہ کے رکن عبیداللہ کا کہنا ہے کہ جب 2009 اور 2010 میں فوجی آپریشنز ہوئے تو زیادہ تر مسلح افراد افغانستان چلے گئے، لیکن اب ان میں سے زیادہ تر افغانستان سے دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے پاکستان واپس آ چکے ہیں۔ 2006 اور 2007 میں مسلح گروہوں کو عام عوام کی جو حمایت حاصل تھی وہ اب 95 فیصد سے زیادہ کم ہو چکی ہے اور گنتی کے چند لوگ باقی ہیں جو علاقے میں بدامنی پھیلا رہے ہیں، جن سے لوگوں کی نفرت بڑھ گئی ہے۔”
تیراہ کے ایک رہائشی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ مسلح افراد نے مقامی لوگوں کی زندگی بہت مشکل بنا دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ رات کو اپنے گھروں سے باہر نہیں نکل سکتے، ان سے بھتہ مانگا جاتا ہے، مسلح افراد ان کے گھروں میں داخل ہوتے ہیں اور کھانا اور ہتھیار مانگتے ہیں

افغانستان میں قبائلی جرگہ اور مسلح گروہوں کے مذاکرات:

قبائلی اضلاع کے عمائدین، دینی علماء اور بعض حکومتی حکام نے 2022 کے مئی میں افغانستان میں مذاکرات کیے تھ لیکن وہ بھی کسی نتیجے کے بغیر ختم ہو گئے اور عام خیال یہی ہے کہ ان مذاکرات کے بعد حملوں میں مزید اضافہ ہوا تھا۔

تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟

دفاعی امور کے ماہر ریٹائرڈ بریگیڈیئر سید نذیر کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ دو دہائیوں تک طویل ہوگئی۔ پاکستان نے سمجھا تھا کہ اس مسئلے کا حل افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد آسان ہو جائے گ لیکن افغان حکومت نے وہ اقدامات نہیں اٹھائے جن سے وہاں موجود دہشت گردوں کو روکا جا سکے۔ پاکستانی طالبان کو اب بھی وہاں ہتھیار، پیسے اور جنگ کے دیگر ضروری وسائل آسانی سے مل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تیراہ، باجوڑ اور دیگر علاقوں میں پاکستان نے کوشش کی کہ دہشت گردی کے مسئلے کو قومی جرگوں کے ذریعے حل کیا جائے، لیکن جرگے ناکام رہے اور اب فوج کے پاس ایک ہی راستہ باقی ہے کہ بندوق کا جواب بندوق سے دیا جائے۔
“ہم دیکھ رہے ہیں کہ جرگوں کی ناکامی کے بعد فوج نے بھی خفیہ آپریشنز بڑھا دیے ہیں اور دہشت گردوں کو روزانہ کی بنیاد پر بھاری نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں