خیبر پختونخوا میں سیلاب کی تباہی سے ہزاروں خاندان بے گھر اور لاکھوں افراد امداد کے منتظر، اقوامِ متحدہ

خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں حالیہ سیلاب نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے، جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد متاثر اور ہزاروں بے گھر ہو گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق دس اضلاع میں 1.57 ملین افراد متاثر ہوئے ہیں، جن میں سے 604,000 کو فوری امداد کی ضرورت ہے۔ رپورٹ کے مطابق سوات، بونیر اور شانگلہ میں سب سے زیادہ آبادی متاثر ہوئی ہے۔

جانی و مالی نقصانات

اقوامِ متحدہ کا دفتر برائے رابطہ امورِ انسانی (او سی ایچ اے) کے مطابق فلیش فلڈز، لینڈ سلائیڈنگز اور مکانات گرنے کے واقعات میں 405 افراد جاں بحق اور 156 زخمی ہوئے ہیں، جس سے مقامی صحت کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے۔اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سیلاب نے 3,487 مکانات کو نقصان پہنچایا، جن میں سے 584 مکمل طور پر تباہ جبکہ 2,903 کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ سوات اور بونیر میں سب سے زیادہ مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔

صحت اور تعلیم کا بحران

او سی ایچ اے کے مطابق سیلاب کی وجہ سے 40 صحت کی سہولیات کو نقصان پہنچا ہے، جن میں سے 25 بونیر میں، 7 شانگلہ میں، اور 3 سوابی میں شامل ہیں۔ صحت کی سہولیات کو پہنچنے والے نقصان اور سڑکوں کی بندش نے لوگوں کی فوری طبی دیکھ بھال تک رسائی محدود کر دی ہے۔ پینے کے غیر محفوظ پانی اور ناکافی صفائی کی وجہ سے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے پھیلنے کا شدید خطرہ ہے۔

اقوامِ متحدہ کا دفتر برائے رابطہ امورِ انسانی کی رپورٹ کے مطابق تعلیم کا شعبہ بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ سیلاب نے 437 اسکولوں کو نقصان پہنچایا ہے، جن میں سے 24 شدید متاثر ہیں۔ سوات میں سب سے زیادہ اسکول تباہ ہوئے ہیں۔ یہ اسکول اب بے گھر خاندانوں کے لیے عارضی پناہ گاہوں کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں، جس کی وجہ سے ہزاروں بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی ہے۔

زراعت اور لائیو اسٹاک کا نقصان

او سی ایچ اے  نے رپورٹ میں بتایا ہے کہ تقریباً 80 فیصد کمیونٹیز نے فصلوں کے نقصان کی اطلاع دی ہے۔ 3,233 ایکڑ زرعی اراضی کو نقصان پہنچا ہے، جس میں سب سے زیادہ نقصان بونیر اور سوات میں ہوا۔ سیلاب نے 6,206 مویشیوں کو بھی ہلاک کیا ہے، جن میں زیادہ تر بونیر، سوات، شانگلہ اور بٹگرام میں تھے۔ اس سے دیہی علاقوں کے لوگوں کی روزی روٹی مزید کمزور ہو گئی ہے۔

امدادی کام اور ضرورتیں

اقوامِ متحدہ کا دفتر برائے رابطہ امورِ انسانی (او سی ایچ اے) کے مطابق سیلاب سے بے گھر ہونے والے افراد میں سے بڑی تعداد نے میزبان خاندانوں کے ہاں پناہ لے رکھی ہے، جس سے ان کے محدود وسائل پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، امدادی کام کی کوریج انتہائی کم رہی ہے۔ خوراک کی امداد صرف 42 فیصد گھرانوں تک پہنچ سکی، صحت کی خدمات 39 فیصد، پناہ گاہ 20 فیصد، غذائیت 15 فیصد اور تعلیم صرف 2 فیصد بچوں تک پہنچ سکی ہے۔

سوات، بونیر اور شانگلہ کو آبادی پر وسیع پیمانے پر اثرات، انفراسٹرکچر اور فصلوں کو شدید نقصان اور امداد کی کم کوریج کی وجہ سے اولین ترجیحی اضلاع قرار دیا گیا ہے۔ مقامی آبادی کی سب سے اہم ضروریات میں خوراک، نقد امداد اور پناہ گاہ شامل ہیں۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں