پاکستان نے 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کے پہلے جائزے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ مذاکرات کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے۔
پاکستانی وفد کی قیادت وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کر رہے ہیں جبکہ آئی ایم ایف کی پاکستان مشن کے سربراہ نیتھن پورٹر آئی ایم ایف ٹیم کی طرف سے مذاکرات کی سربراہی کر رہے ہیں۔
پیر سے شروع ہونے والے مذاکرات تقریباً دو ہفتوں تک جاری رہیں گے۔ پہلے مرحلے میں جولائی 2024 سے دسمبر 2024 تک پاکستان کی معاشی کارکردگی کے تکنیکی پہلوؤں پر توجہ مرکوز کی جائے گی جبکہ دوسرے مرحلے میں اعلیٰ سطحی پالیسی مباحثے شامل ہوں گے۔
جائزے کا ایک اہم عنصر 2025-26 کے بجٹ کا جائزہ ہوگا جو فی الحال تیاری کے مراحل میں ہے۔
ایک کامیاب جائزہ پاکستان کے لیے ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلٹی (ای ای ایف) پروگرام کے اگلے 1 ارب ڈالر کی قسط کو جاری کرنے کے لیے ضروری ہے۔
آئی ایم ایف کی ٹیم پاکستانی حکومتی اداروں کے ساتھ مختلف میٹنگیں کرے گی، جن میں وزارت خزانہ، توانائی، پلاننگ کمیشن، اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی)، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)، اور ریگولیٹری اتھارٹیز جیسے اوگرا اور نیپرا شامل ہیں۔
اس کے علاوہ آئی ایم ایف پاکستان کے چاروں صوبوں کے نمائندوں کے ساتھ علیحدہ میٹنگیںز بھی شیڈول کی گئی ہیں۔
پچھلے سال طویل مذاکراتی سلسلے کے بعد پاکستان اور آئی ایم ایف 37 ماہ کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلٹی پروگرام پر 7 ارب ڈالر کے معاہدے پر متفق ہوئے تھے۔ یہ معاہدہ نئی اتحادی حکومت اور وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی پہلی بڑی کامیابی تھی۔
اس پروگرام کی منظوری کے بعد حکومت نے معیشت کو ‘پلٹنے’ کا دعویٰ کیا ہے جس میں افراط زر کی شرح میں نمایاں کمی شامل ہے۔ جیسے جیسے افراط زر کی شرح کم ہوئی ہے، حکومت نے معیشت میں سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے سود کی شرح میں بھی کمی کی ہے۔