جمعے کو خیبرپختونخوا کے ضلع نوشہرہ کے علاقے اکوڑہ خٹک میں واقع مدرسہ حقانیہ کے نائب مہتمم مولانا حامد الحق حقانی کو خودکش دھماکے کا نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے میں مولانا سمیت دیگر افراد جاں بحق ہو گئے۔
ریسکیو 1122 کے اہلکاروں کے مطابق اس حملے میں کم از کم 12 افراد زخمی ہوئے جنہیں بعد میں ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا۔
واقعے کی سی سی ٹی وی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ حملہ آور نماز کے بعد مولانا حامد الحق کا گھر جاتے ہوئے تعاقب کرتا ہے اور ان کی طرف بڑھتا ہے۔
انسپکٹر جنرل پولیس ذوالفقار حمید نے بتایا کہ حملہ اس وقت ہوا جب مولانا سیڑھیاں اتر رہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس تین مختلف زاویوں سے واقعے کی تحقیقات کر رہی ہے اور مجرموں کو ڈھونڈ کر ان کو قرار واقعی سزا دی جا ئیگی۔
خیبر پختونخوا کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ نے اس واقعے کے بعد دہشت گردی کا کیس درج کرلیا ہے اور خودکش بمبار کی تصویر بھی جاری کی ، جس کے بارے میں کسی بھی معلومات کے بدلے 50 لاکھ روپے کا انعام رکھا گیا ہے۔
حامد الحق کے والد مولانا سمیع الحق کو بھی 2018 میں راولپنڈی کے علاقے بحریہ ٹاؤن میں ان کے گھر میں قتل کر دیا گیا تھا۔
تمام مکاتب فکر کے علماء نے اس حملے کی شدید مذمت کی اور حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ ملک میں مذہبی علماء کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کریں۔
قرآن و سنت موومنٹ کے چیئرمین علامہ ابتسام الہی ظہیر نے خبر کدہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ مساجد میں مذہبی علماء پر حملے کر رہے ہیں وہ حیوانیت کی انتہا پر ہیں۔
انہوں نے قرآن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سورہ نساء میں اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی مومن کو قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہوگی۔ سورہ بقرہ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ جو کوئی مساجد میں اللہ کے ذکر کو روکنے کی کوشش کرے وہ ظالم ہے۔
ابتسام الہی ظہیر نے مولانا حامد الحق اور ان کے والد کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ وہ بہت ہی عاجز اور نیک انسان تھے۔ خطبہ دیتے وقت بھی وہ کبھی جارحانہ الفاظ استعمال نہیں کرتے تھے۔ یہ حملہ دل دہلانے والا واقعہ تھا جو گہرے صدمے سے بھرپورہے۔ مسجد جیسے مقدس ترین مقام پر ایسی وحشیانہ کارروائیاں انتہائی گھناؤنا جرم ہے اور اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔
مجلس وحدت المسلمین کے چیئرمین سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس نے خبر کدہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سب مل کر اپنے ملک کے دشمنوں کے خلاف کھڑے ہوں۔ مسجد میں پہلا حملہ امام علی (رضی اللہ تعالٰی عنہ) پر کیا گیا تھا۔ تمام مذہبی علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ مسجد میں کسی کو نقصان پہنچانا ‘حرام’ ہے۔
جماعت اسلامی کے رہنما سراج الحق نے اس واقعے کو پوری مسلم امہ پر حملہ قرار دیا۔ جنازے میں شرکت کے بعد انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک تیسری قوت صوبائی اور وفاقی حکومت کی آپس کی لڑائی سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ جن لوگوں نے یہ کیا ان کا کوئی مذہب نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے استحکام کے لیے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی اشد ضرورت ہے۔
کراچی کے جامعہ بنوریہ انٹرنیشنل کے چانسلر مفتی نعمان نعیم نے کہا کہ خودکش حملے اسلام میں سختی سے ممنوع اور ‘حرام’ ہیں۔ قرآن میں واضح طور پر لکھا ہے کہ اپنے آپ کو قتل کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔ نیز کسی مسلمان حکومت کے خلاف کسی بھی قسم کی تخریب کاری ایک ظالمانہ جرم ہے۔
حامد الحق ایک زمانے میں سیاست میں سرگرم تھے اور انہوں نے 2002 کے عام انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر نوشہرہ کے این اے 6 سے حصہ لیا تھا۔ وہ اس سیٹ پر کامیاب ہوئے اور تقریباً پانچ سال تک اسمبلی کے ممبر رہے تاہم اکتوبر 2007 میں احتجاجاً مستعفی ہوگئے ۔
صدر مملکت آصف علی زرداری، وزیراعظم شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن نے حملے میں جانی نقصان پر سخت مذمت کا اظہار کیا اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کی۔
مولانا حامد الحق کی نماز جنازہ ہفتہ کو ادا کی گئی اور انہیں ان کے والد کے پہلو میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ حقانیہ کے سرکاری بیان کے مطابق، حامدالحق کے بھائی مولانا رشید الحق کو مدرسہ حقانیہ کے نائب مہتمم کے طور پر نامزد کیا گیا جبکہ مرحوم مولانا حامد الحق حقانی کے بیٹے مولانا عبد الحق ثانی ان کے سیاسی عہدے کے وارث ہوں گے۔
پشاورمیں تعینات افغان قونصل جنرل حافظ محب اللہ شاکر نے بھی جنازے میں شرکت کی اور کہا کہ افغانستان حقانی خاندان کے ساتھ اس مشکل وقت میں یکجہتی کا اظہار کرتا ہے۔