ہفتہ کے روز خیبر پختونخواہ میں پولیس اور دہشت گردوں کے درمیان گھنٹوں تک شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ یہ واقعہ کرک اور لکی مروت کے سرحدی علاقے عباسہ خٹک میں پیش آیا۔
فائرنگ کے تبادلے کے نتیجے میں ایک دہشت گرد ہلاک اور ایک پولیس اہلکار شدید زخمی ہو گیا۔
زخمی پولیس اہلکار کو طبی علاج کے لیے پشاور منتقل کر دیا گیا ہے۔ فائرنگ کے بعد دہشت گرد موقع سے فرار ہو گئے۔
اطلاعات کے مطابق پولیس فی الحال واقعے کی تحقیقات کر رہی ہے اور فرار ہونے والے دہشت گردوں کا پیچھا کر رہی ہے۔
چند روز قبل ضلع لکی مروت میں پولیس نے سڑک کے کنارے نصب کیے گئے ایک دیسی ساختہ بم کو ناکارہ بنایا تھا۔ بم میں کل 45 کلوگرام دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا تھا جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنانے کے لیے نصب کیا گیا تھا۔
خیبر پختونخوا میں دہشت گرد گروہوں نے حالیہ مہینوں میں دعویٰ کیا ہے کہ وہ صرف قانون نافذ کرنے والے افسران اور سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنائیں گے۔ دہشت گردوں کی طرف سے اس اعلان کا مقصد دہشت گردی کے خلاف لڑنے والی فورسز کے حوصلے پست کرنا تھا ۔ اس اعلان کے بعد سیکورٹی فورسز پر حملوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ان حملوں میں دہشت گردوں نے سیکیورٹی فورسز کے گھروں اور چھٹی پر آنے والے اہلکاروں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
تاہم تحریک طالبان پاکستان سمیت باقی دہشت گرد گروہوں کے دعوؤں کے برعکس متعدد عام شہریوں کو بھی دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔
سیکیورٹی فورسز نے بڑے آپریشنز کی بجائے انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا کر ان کو غیر فعال بنا رہے ہیں۔ صرف 2024 میں سیکورٹی فورسز نے تقریباً 60,000 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے، جس میں 925 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔