پیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک بند کمرہ اجلاس منعقد کیا جس میں بھارت اور پاکستان کے درمیان تیزی سے بگڑتی ہوئی سیکیورٹی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس اجلاس میں خاص طور پر خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال پر توجہ دی گئی ۔
یہ اجلاس پاکستان کی درخواست پر منعقد ہوا۔ بھارت کے حالیہ یکطرفہ اقدامات اور اشتعال انگیز بیانات کے نتیجے میں فوجی تنازعے کا خطرہ بڑھ چکا ہے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق سلامتی کونسل کے ممبران نے بڑھتے ہوئے تنازعے کے خطرے پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور تحمل اور کشیدگی میں کمی کی فوری ضرورت پر زور دیا۔ اجلاس میں فوجی تصادم کو روکنے کے لیے بات چیت اور سفارت کاری پر زور دیا گیا۔ کئی ممبران نے جموں و کشمیر کے دیرینہ تنازعے کو علاقائی عدم استحکام کی بنیادی وجہ قرار دیا، اور اس بات پر زور دیا کہ اس تنازعے کا حل سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق ہونا چاہیے۔
کئی ممبران نے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا حوالہ دیتے ہوئے بین الاقوامی قانون اور ذمہ داریوں کے احترام کی اہمیت پر بھی زور دیا۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر عاصم افتخار احمد نے کونسل کو بریفنگ دیتے ہوئے بھارت کے اشتعال انگیز اقدامات، بشمول 23 اپریل کو اعلان کردہ اس کے یکطرفہ اقدامات اور جارحانہ فوجی انداز پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ یہ اقدامات ‘ناجائز اور خطرناک ہیں، اور تباہ کن نتائج کا باعث بن سکتے ہیں۔’
سفیر افتخار احمد نے انٹیلی جنس بھی شیئر کی جس میں پاکستان کے خلاف بھارت کی جانب سے متوقع طور پر فوری فوجی کارروائی کا خطرہ ظاہر کیا گیا تھا جبکہ پاکستان کی جانب سے اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے دفاع اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت اپنے حق خود ارادیت کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔
پاکستان نے 22 اپریل کو بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہونے والے حملے سے اسے جوڑنے کے بھارت کے الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ الزامات کسی تحقیق یا معتبر ثبوت کے بغیرلگائے گئے ہیں۔
پاکستان نے زور دیا کہ ایسے واقعات کو جارحیت کو جواز فراہم کرنے یا بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرنے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ پاکستان نے اس بات کو اجاگر کیا کہ بھارت نے تاریخی طور پر اسی طرح کے واقعات کو کشمیری عوام کی حق خود ارادیت کی تحریک کو دبانے اور اپنی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو چھپانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اجلاس میں پاکستان نے ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی اور ٹارگٹڈ قتل و غارت میں بھارت کے مبینہ ملوث ہونے کو بھی اجاگر کیا ہے۔
پاکستان نے مزید خبردار کیا کہ 1960 کے سندھ طاس معاہدے کی بھارت کی یکطرفہ معطلی کو "جنگ کی کارروائی” کے مترادف قرار دیا۔
پاکستان نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور کونسل کے ممبران کی جانب سے مذاکرات اور کشیدگی میں کمی کے مطالبات کا خیرمقدم کیا اور صورتحال کو پرسکون کرنے کے لیے اپنی سفارتی کوششیں تیز کرنے کا عہد کیا ہے۔
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا کہ اجلاس سے پاکستان کے مقاصد "بڑی حد تک پورے” ہوئے ہیں ۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ واضح احساس دلایا گیا کہ علاقائی استحکام یکطرفہ پالیسیوں کے ذریعے برقرار نہیں رکھا جا سکتا اس کے لیے اصولی سفارت کاری، بات چیت اور بین الاقوامی قانون کی پاسداری کی ضرورت ہے۔