وہ نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو کی ایک روشن صبح تھی۔ 2019ء میں پاکستان سے میرے سمیت صحافیوں کا ایک وفد جنوبی ایشیاء کے دیگر ممالک کے صحافیوں کے ہمراہ ایک پانچ تارہ ہوٹل میں مقیم تھا۔ ناشتے پر پہلے نیپال کے صحافیوں سے ملاقات ہوئی جو مسکرا کر کہنے لگے کیا کام کیا ہے؟ مجھے ککھ سمجھ نہیں آئی کہ کیا ہوا ہے۔ اتنے میں بنگلہ دیش کے صحافی مین الحق بھی ناشتے کی میز پر آئے اور کہا کہ پاکستان نے بہت بڑا کام کیا ہے۔ میں نے سوچا کہ ہوسکتا ہے کوئی کرکٹ میچ ہوا ہو جو پاکستان نے جیتا ہو لیکن عرصہ ہوا مجھے کوئی کرکٹ میچ دیکھے ہوئے۔ اتنے میں سری لنکن صحافی بھی پہنچے اور مسکرا کر کہا پاکستان نے اچھا کام کیا ہے۔ میں نے اپنے ساتھی برادرم ضیاء الرحمن سے پوچھا بھائی کوئی میچ جیتا ہے ہم نے؟ وہ بھی توڑی شش وپنج میں تھا۔ پھر بات چیت کے دوران معلوم ہوا کہ پاکستان نے ہندوستانی جہاز مار گرایا ہے اور پائیلٹ کو واپس کیا ہے۔
مجھے بنگلہ دیشی صحافی مین الحق کی خوشی پر حیرت تھی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ کیوں اتنا خوش ہے۔ تب اس وقت اس نے مجھے کہا کہ دنیا کو معلوم نہیں کہ ہندوستان کے خلاف بنگلہ دیش میں کتنی نفرت ہے اور یہ لاوا ایک دن اگلے گا۔بعد میں ہم نے یہ دیکھا بھی۔باقی ممالک کے حوالہ سے بھی اس نے بتایا کہ ان ممالک کے ساتھ ہندوستان کا رویہ ایسا ہے کہ جیسے سارے ہندوستان کے بل بوتے پر چل رہے ہیں۔ نیپال ایک چھوٹا ملک ہے لیکن ہندوستان اس کو بھی وقتا فوقتا ڈستا رہتا ہے۔ اس نے بتایا کہ سب کی نظریں پاکستان پر ہوتی ہیں کیونکہ جنوبی ایشیاء میں واحد پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو ہندوستان کے ساتھ ٹکراتا رہتا ہے اور سب سے بڑی بات ایک ایٹمی ملک ہے۔
تب مجھے اپنی لاعلمی کا احساس ہوا اور اس حقیقت پر پہنچا کہ ہمارا علم ہندوستان کے حوالہ سے ہندوستانی میڈیا کے مرہون منت ہے۔ ہندوستان کے مقابلہ میں پاکستان بھی ایک چھوٹا ملک ہے۔ جتنی ہماری پوری فوج ہے اتنی فوج تو انڈیا نے صرف کشمیر میں لگائی ہے اور قریبا نو لاکھ کے لگ بھگ ریزرو فوج ہے شاید اس لیئے پاکستان احتیاط سے کام لے رہا ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ جنوبی ایشیاء کے دیگر ممالک کی طرح دبک کر بیٹھ جائے بلکہ کئی مواقع پر تو حملے میں بھی پہل کی ہے۔
کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں سیاحوں پر حملہ ہوا تو امریکی نائب صدر جے ڈی وینس اپنی بھارتی نژاد بیوی کے ہمراہ انڈیا میں اور خود ہندوستانی وزیراعظم مودی سعودی عرب کے دورے پر تھے۔ حملے کے بعد نہ تحقیق نہ تفتیش بس جناب اپنے پراپیگنڈہ فلموں سے خود متاثر ہو کر پاکستان پر چڑھ دوڑے کہ سندھ طاس معاہدہ ختم، بارڈر بند، پاکستانی نکل جائیں۔ جیسے ایک تیار سکرپٹ پہلے سے لکھا گیا تھا۔ اس پر ہندوستانی میڈیا میں بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ جب سیکیورٹی کلئیرنس نہیں تھی تو سیاحوں کے لیئے یہ جگہ کیوں کھولی گئی۔ آٹھ لاکھ فوج کی موجودگی میں عسکریت پسند ڈیڑھ گھنٹے تک حملے میں مصروف رہے اور جائے وقوعہ پر کوئی نہیں پہنچا۔ سب سے بڑھ کر وفاقی وزیر امیت شاہ اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈول پر تنقید ہورہی ہے۔ یہ دونوں حضرات ہندوتوا کے کٹر ماننے والے ہیں اور یہ کہتے رہے کہ کشمیر سے عسکریت پسندی کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہے۔ پھر یہ سب کیوں؟ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں بھی شہری اس حملے پر شکوک کا اظہار کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے بھی پاکستان نے اسے ایک فالز فلیگ آپریشن قرار دیا ہے۔ 1970ء میں اسی طرح کی ایک کاروائی کشمیریوں سے کروائی گئی۔ انڈین جاسوس ادارےراء کے چیف کاؤ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ہندوستان نے کشمیر سے لاہور تک ہندوستانی جہاز گنگا کو لے جانے میں معاونت کی اور پھر اس کے نتیجہ میں بنگلہ دیش جانے والی پاکستانی پروازوں پر پابندی لگا دی اس طرح بنگلہ دیش کے قیام سے بہت پہلے مغربی پاکستان کو مشرقی پاکستان سے کاٹا گیا۔ ہندوستان کے لیئے یہ حرکتیں کوئی نئی نہیں ہیں۔ پچھلی بار جب کشمیر کو زبردستی ہندوستان کا حصہ بنایا گیا تو پاکستان گویا کومے میں چلا گیا۔ اس وقت کے وزیراعظم نے کہا کیا کروں حملہ کردوں اور پھر فیصلہ ہوا کہ جمعے کو گھر سے باہر نکل کر ایک دوسرے کو دیکھیں گے۔ لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا۔ اس بار عسکری قیادت کے ساتھ بیٹھ کر سر جوڑ کر حکمت عملی مرتب کی گئی۔ جوابی وار ایسا کہ خود ہندوستان کومے میں جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ پہلا وار پاکستانی حدود تمام تر ہندوستانی پروازوں کے لیئے مکمل بند اور اس کے ساتھ ہی واہگہ بارڈر تمام تر تجارتی سرگرمیوں کے لیئے بند۔ یوں سمجھیئے بنیے کو اسی کے زبان میں جواب دے دیا گیا ہے۔ آج چین، روس، یورپ، امریکہ جو وسط ایشیاء تک رسائی چاہتا ہے اور ہندوستان کے لیئے یہ ایک خواب ہے پاکستان نے اس کی وہ شہ رگ کاٹ لی۔ ایران کے راستے افغانستان اور پھر وہاں سے وسط ایشیاء لیکن بنیا کیا یہ نقصان برداشت کر سکتا ہے۔اس طرح پاکستانی فضائی حدود بند ہونے کے باعث دو گھنٹے سفر کی طوالت اور اس کے ساتھ ہونے والا خرچہ تو ظاہر ہے سواریوں کی مہنگے ٹکٹ سے ہی نکالا جائے گا۔
ہندوستان کو یہ کیوں نہیں معلوم ہو رہا کہ کشمیر کو اب پاکستان کی مدد کی ضرورت نہیں رہی۔ سابق صدر مشرف دور میں ہی پاکستان نے ان سے راستے علیحدہ کر لیئے جس پر وہ پاکستان سے ناراض بھی ہوئے لیکن اس کے بعد انہوں نے نفرت کی جو بیج خود بوئے، جو ظلم کشمیری جوانوں، بوڑھوں اور خواتین پر کیا کیا اس کا کوئی ردعمل نہیں آنا ہے؟ جب سینکڑوں کی تعداد میں مسلمانوں کو زبردستی “واپسی” نامی مہم کے ذریعہ ہندو بناؤ گے، بابری مسجد گرا کر مندر بناؤ گے، مسلمانوں کو گائے کے نام پر زندہ جلاؤ گے، جب نفرت کی آگ اس حد تک بھڑکاؤ گے کہ روح افزا نامی شربت پر بھی “جہادی شربت” کا ٹھپہ لگاؤ گے تو ہندوستان کے مسلمان شہریوں میں کیا محبت کے پھول اگیں گے۔ کیکر کا پودا بو کر سیب کے باغات کا انتظار کرنا ہے تو کرتے رہو۔
بہرحال پاکستان اب 9/11 سے پہلے والا پاکستان نہیں رہا ہے۔دو دہائیوں سے زاید ایک اندرونی جنگ لڑ رہا ہے جو دنیا کی سب سے خطرناک جنگ ہے۔ حالت جنگ میں موجود فوج کے ساتھ لڑنا ہندوستان افورڈ نہیں کر سکتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہندوستان نے یہ فالس فلیگ آپریشن کیا کیوں؟ اس کے پیچھے ہی اصل خبر ہے۔
نوٹ: اس کالم میں شائع ہونے ولی آراء مصنف کی اپنی ہیں اور کسی طرح خبر کدہ کی اقدار کی ترجمانی نہیں کرتی