مساجد اور مذہبی اسکالرز پر حملے کرنا جہاد نہیں ہے، مولانا فضل الرحمن

| شائع شدہ |12:28

جمیعت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ اسلام کے خلاف اٹھائی گئی بندوق سے جہاد نہیں ہو سکتا اور دہشت گردی ختم ہونے کے بعد بھی مسجدیں قائم رہیں گی۔

اتوار کے روز انہوں نے نائب منتظم دارالعلوم حقانیہ مولانا حامد الحق کی ایک خودکش حملے میں شہادت پر تعزیت کے لئے دارالعلوم حقانیہ کا دورہ کیا۔ مولانا نے واقعے پر غم اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مدرسہ کی انتظامیہ، اساتذہ، طلباء اور اس سانحہ سے متاثرہ تمام لوگوں کے ساتھ تعزیت کی۔

اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مولانا نے کہا کہ مولانا حامد الحق کی حالیہ شہادت کی افسوس ناک خبر انہیں عمرہ کے دوران ملی۔ انہوں نے کہا کہ ان کے پاس اس  درد اور غم کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں تھے۔

انہوں نے مولانا حامد الحق اور تمام شہداء کے لیے آخرت میں بلند درجات کی دعا کی اور لواحقین  کے لیے صبر کی دعا کی۔

جے یو آئی کے سربراہ نے حملے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ "مولانا حامد الحق پر حملہ میرے گھر اور میرے مدرسے پر حملہ ہے۔” انہوں نے کہا کہ مولانا حامد الحق کا حقانیہ سے تعلق ہی ان کا واحد "جرم” تھا۔

فضل الرحمن نے کہا ” جو بندوق اسلام کے خلاف استعمال ہو یہ جہاد نہیں دہشتگردی  ہے” اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا حوالہ دیا جس میں انسانی جان کے تقدس کو کعبہ سے بھی بلند بتایا گیا ہے۔

انہوں نے دو دن قبل بلوچستان میں تراویح کی نماز کے دوران ایک مذہبی عالم پر ہونے والے ایک اور حملے کا حوالہ دیا اور ایسے واقعات کو تاریک طوفان قرار دیا جو آخرکار گزر جائیں گے، اور مساجد آباد رہیں گی۔

انہوں نے ذمہ داروں کو ظالم دہشت گرد قرار دیتے ہوئے کہا، "میں اپنے اساتذہ کو شہید اور قاتلوں کو مجاہد کیسے کہہ سکتا ہوں؟ یہ ناقابل قبول ہے۔”

مولانا فضل الرحمان نے اپنے بزرگوں کے عقائد اور اصولوں کو برقرار رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔ انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ مدرسے، مساجد اور مذہبی علماء قائم رہیں گے، جبکہ ان کے دشمن آخرکار اپنے اعمال پر پچتائیں گے۔ اس دورہ میں ان کے  ہمراہ علامہ رشید محمود سومرو، انجینئر ضیاء الرحمان، اور مولانا عطاء الحق درویش شامل تھے۔

یاد رہے کہ 28 فروری کو جمعے کی نماز کے فوراً بعد مدرسہ حقانیہ میں اایک خودکش دھماکہ ہوا تھا جس میں  مدرسہ کے نائب منتظم مولانا حامد الحق کو نشانہ بنایا گیا تھا۔  حملے میں پانچ دیگر افراد کے ہمراہ ان کی ہلاکت ہوئی تھی۔ اب تک کسی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں