دہشت کے سیاہ سائے اور انصاف کے تقاضے

| شائع شدہ |14:19

پاکستان نے دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے مخصوص قانون سازی کی ہے جس کو اینٹی ٹیررزم ایکٹ1997 (اے ٹی اے) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پاکستان دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار ہے اور یہ قانون پاکستان میں دہشت گردی، فرقہ وارانہ تشدد اور سنگین جرائم کے خلاف فوری مقدمات چلانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ قانون کے پیچھے موجود عوامل اور ارادوں کے باوجود اے ٹی اے اور اس پر عمل درآمد کرنے والی انسداد دہشتگردی  عدالتیں (اے ٹی سیز) کو متعدد چیلنجز اور تنقید کا سامنا رہا ہے۔

اے ٹی اے میں درج دہشت گردی کی تعریف بہت وسیع ہے جس میں عوام کو خوفزدہ کرنے یا بنیادی سہولیات کو کو منقطع کرنے جیسے  جرائم شامل ہیں۔ یہ قانون سخت سزائیں تجویز کرتا ہے جن میں موت کے واقعات میں موت کی سزا بھی شامل ہے۔ یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو طاقت استعمال کرنے، وارنٹ کے بغیر مشتبہ افراد کو گرفتار کرنے اور عدالتی نگرانی کے بغیر تلاشی لینے کا اختیار دیتا ہے۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے تنقید کرتے ہوئے اس کو آئینی اور بین الاقوامی انسانی حقوق  کی خلاف ورزی کا قانون قرار دیا ہے ۔ان کا کہنا ہے کی یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ضرورت سے زیادہ اختیارات دیتا ہےجو تشدد اور ناانصافی پر مبنی مقدمات کے لیےاستعمال ہو سکتا ہے۔

پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف کارروائی کی بنیادی ذمہ داری پولیس پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن مناسب تربیت اور وسائل کے فقدان سمیت بدعنوانی کے مسائل کی وجہ سے پولیس فورس جدید دہشت گردی کی پیچیدگیوں سے مؤثر طریقے سے نمٹنے میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ اس فقدان کی وجہ سے دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس کام کے لیے چنا گیا جو انسداد دہشتگردی کے اقدامات سے لاعلم ہوتے ہیں جس کی وجہ سے نظام مزید دباؤ کا شکار ہے۔ اس سلسلے میں عدالتیں، جو اس کام کے لیے قائم کی گئی ہیں، عدم تحفظ کا شکار ہیں جس کی وجہ سے اکثر انسداد دہشتگردی کے زیرسماعت مقدموں میں ججز ہچکچاہٹ سے کام لیتے ہیں۔ عدلیہ کے اراکین، جو دہشت گردی کے الزامات میں ملوث افراد کے مقدمات چلانے کے ذمہ دار ہیں، اکثر اپنے اور اپنے خاندانوں کی جانوں کے تحفظ کے بارے میں فکرمند رہتے ہیں جس کی وجہ سے انسداد دہشتگردی عدالتوں میں ممکنہ طور پر ہچکچاہٹ پیدا ہوتی ہے۔ لہٰذا منصفانہ اور غیر جانبدارانہ مقدمات چلانے کے لیے ججوں اور عدالتی عملے کے لیے مناسب تحفظ فراہم کرنا نہایت ضروری ہے۔

چند ایسے واقعات  کی مثال موجود ہے جو ان مسائل کو واضح طور پر بیان کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر مئی 2023 میں حکام نے احتجاج کے دوران سیاسی رہنماؤں سمیت 4000 سے زائد افراد کو گرفتار کیا جس میں کئی کو غیر قانونی حراست میں رکھا گیا۔  بعدازاں بہت سے لوگوں پر اے ٹی اے کے تحت الزامات عائد کیے گئے اور کئی پر  فوجی عدالتوں کے تحت مقدمات چلائے گئے جو ان کے منصفانہ ٹرائل کے حق کی خلاف ورزی تھی۔ اس قانون کے غلط استعمال کا ایک قابل ذکر واقعہ بلوچستان کے سابق وزیراعلی اختر مینگل کا ہے جنہیں ایک اشتہاری مجرم قرار دیا گیا اور 2008 تک غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا۔ یہ مقدمات اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسداد دہشتگردی قانون اور انسداد دہشتگردی عدالتیں غیر قانونی حراستوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا باعث بن سکتے ہیں۔

جبری گمشدگیاں ایک اور مسئلہ ہیں جن کا اکثر نشانہ حکومت یا فوج پر تنقید کرنے والے بنتے ہیں۔ اظہار رائے کی آزادی پر پابندیاں بھی تشویش کا باعث ہیں۔ 2019 میں انسانی حقوق کے کارکن پروفیسر محمد اسماعیل کو سوشل میڈیا پر حکومتی اداروں پر تنقید کرنے کی پاداش میں اغوا کرکے غیر قانونی حراست میں لے لیا گیا تھا۔

ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک  جامع حل کی ضرورت ہے جس سے  اے ٹی اے کے خامیوں پر مبنی شقوں میں ترمیم یا انہیں منسوخ کر کے انسانی حقوق کے تحفظ کو مضبوط بنایاجائے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے نگرانی کا طریقہ کار بنایا جائے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تربیت، وسائل اور پولیس فورس کی جدید خطوط پر استواری میں سرمایہ کاری  کی ضرورت ہے جس سے خصوصی انسداد دہشتگردی یونٹس اور بدعنوانی کے خلاف اقدامات کو بہتر بنایا جاسکے ۔ عدلیہ کے ججوں اور عملے کو جامع سیکیورٹی پروگراموں کے ذریعے تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے اور ان لوگوں کے لیے سخت سزائیں ہونی چاہئیں جو عدالتی افسران کو دھمکاتے ہیں۔ انسداد دہشتگردی عدالتیں، کیس مینجمنٹ نظام اور تمام متعلقہ فریقین کے درمیان بہتر ہم آہنگی کے  لیے فنڈز میں اضافے سے عدالتی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے ۔ مزید یہ کہ ادارے میں شفافیت اور جوابدہی کو بہتر بنانے کے لیے مقدمات کے نظام کو بہتر بنانے، غیر قانونی حراستوں کو کم کرنے، اور انسانی حقوق کے تحفظ کی نگرانی کے لیے ہر خوف سے آزاد نگرانی کے ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے معاشی و سماجی پالیسیوں کی بہتری کی ضرورت ہے جہاں غربت، عدم مساوات اور تعلیم کے ساتھ ساتھ باہمی رواداری جیسی اقدار پر توجہ دی جائے ۔

بہت سے ایسے ممالک ہیں جہاں ایسی اصلاحات نافذ ہو چکی ہیں جنہیں پاکستان میں نافذ کیا جا سکتا ہے۔ یورپی یونین نے دہشت گردی کے خلاف ایک مضبوط فریم ورک تیار کیا ہے جو ان کے رکن ممالک کے درمیان معلومات کے تبادلے اور منی لانڈرنگ کے خلاف قوانین پر زور دیتا ہے۔ برطانیہ کا ٹیررازم ایکٹ 2006 سیکیورٹی کی ضروریات کو قانونی تحفظ کے ساتھ متوازن کرتا ہے جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ مشتبہ افراد کو بغیر چارج کے لامحدود مدت تک حراست میں نہ رکھا جائے۔ اردن سیکیورٹی اور انسانی حقوق کے درمیان توازن کو اہمیت دیتا ہے جو دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں منصفانہ قانونی کارروائی اور انسانی حقوق کے احترام پر زور دیتا ہے۔

پاکستان بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف موثر قابل عمل حکمت عملی بنا سکتا ہے۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ نے دہشت گردی کے خلاف ایک جامع فریم ورک تیار کیا ہے جس میں بین الاقوامی تعاون اور انسانی حقوق کے احترام پر زور دیا گیا ہے۔ پاکستان انسداد دہشت گردی قوانین کو ان بین الاقوامی معیارات کے ساتھ جوڑ کر اپنے قانونی فریم ورک کو مضبوط بنا سکتا ہے جس سے  وہ اپنے شہریوں کے حقوق کا احترام بھی یقینی بنا لے گا۔

دہشت کی پرچھایاں ختم کرنے کے لیے قانونی فریم ورک کے علاوہ مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ایک جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہے جو انصاف اور انسانی حقوق کے ساتھ ایک فعال ریاست کی ترجیحات کو اولین رکھے۔ پاکستان کو ایک ایسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہونا چاہئیے جو  انسداد دہشتگردی کی کاوشوں کو قانون کی حکمرانی، موثر قابل اعتماد پولیس فورس، اور محفوظ عدالتی نظام جس سے خوف کے بجائے لوگوں کو امید کی کرن ملتی ہو ، سے جوڑ دے۔ جامع اصلاحات لا کر پاکستان ایک زیادہ مضبوط اور منصفانہ معاشرہ تعمیر کر سکتا ہےاور مندرجہ بالا چیلنجز پر قابو پانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ اس طرح شہریوں کی حفاظت اور بہبود کو یقینی بنا کر ان اصولوں کا احترام کرا یا جاسکتا ہے جو ریاست کے لیے اہم ہیں۔ یہ اصلاحاتی تغیر پاکستان کے لیے ناگزیر ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کو انصاف اور دیرپا امن سے منور کر سکتی ہے۔

نوٹ: اس کالم میں شائع ہونے ولی آراء مصنف کی اپنی ہیں اور کسی طرح خبر کدہ کی اقدار کی ترجمانی نہیں کرتی

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں