ضلع کرم میں تین مہینوں سے زائد عرصہ سے جاری پرتشد فسادات تھم نہ سکے- شعیہ اور سنی قبائل کے درمیان مسلح جھڑپیں علاقے میں سینیٹیشن آپریشن کے باوجود جاری رہیں۔ جاری آپریشن کا مقصد علاقے کو ہر قسم کے ہتھیاروں اور بنکروں سے پاک کرنا اور حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کو حکومتی گرفت میں لانا تھا۔
ضلعی حکومت پر امید ہے کہ بدھ کے روز ایک اور امدادی قافلہ متاثرہ ضلع کے متاثرین کی مدد کے لئے روانہ ہو جائے گا۔
حکومتی ذرائع نے خبر کدہ کو بتایا ہےکہ لوئر کرم میں 19 جنوری کو شروع ہونے والا سرچ اور کلیئرنس آپریشن بدھ کے روز مکمل ہو گیا۔ حکومتی دعویٰ کے مطابق آپریشن کے دوران بھاری ہتھیار ضبط کیے گئے ہیں۔ لیکن علاقہ میں کرفیو ابھی بھی نافذ ہے۔
مقامی ذرائع نے خبر کدہ کو بتایا کہ کرم جانے والی مرکزی شاہراہ ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند ہے اور ضلع باقی ملک سے کٹا ہوا ہے۔ سڑک کی طویل بندش کی وجہ سے بنیادی ضروری اشیاء تاحال پاراچنار اور آس پاس کے دیہات تک نہیں پہنچ سکیں۔
دوسری طرف بگن میں قبائلی رہنماؤں نے دھرنا دیا ہے جس میں وہ حکام سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ایک ہی بار شرپسندوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کریں اور لوگوں تک مناسب مقدار میں امداد پہنچانے کو یقینی بنائیں-
فی الوقت حکومت کی جانب سے کرم اور ٹل کے درمیان ایک ہیلی کاپٹر سروس چلائی جا رہی ہے اور سیکیورٹی کلیئرنس کے بعد امدادی قافلہ بذریعہ سڑک روانہ کیا جائے گا۔
حکومت نے قبائلی رہنماؤں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ عوام کی مدد سے ہمیں ایسی معلومات فراہم کی گئیں جس کی بدولت قانون نافذ کرنے والے ادارے کارروائی کر سکے۔
یہ آپریشن 19 سے بگن اور اس کے آس پاس علاقوں میں 22 جنوری تک جاری رہا- اس دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں نے علاقے میں اعلانات کیے کہ لوگ رضا کارانہ طور پر اپنے ہتھیار حوالے کریں ورنہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پائیدار امن کے قیام کے لیے قبائلی رہنماؤں سے مذاکرات بھی ساتھ ساتھ جاری رہیں گے۔
کرم میں گزشتہ تین ماہ سے شیعہ اور سنی قبائل کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں جس میں ایک طویل مذاکراتی عمل کے بعد حکومت ایک گرینڈ جرگہ کے ذریعے
مخالف فریقین سے امن معاہدے پر دستخط کرانے میں کامیاب ہوئی۔ یہ امن معاہدہ اس وقت بدامنی کا شکار بنا جب 5 جنوری کو ضلع کرم کے ڈپٹی کمشنر اور پانچ دیگر افراد ایک فائرنگ کے واقعے میں زخمی ہو گئے۔ بعد ازاں 16 جنوری کو ایک امدادی قافلے کو راکٹوں سے نشانہ بنایا گیا جس میں سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں سمیت 10 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے-جس کے بعد حکومت نے امن معاہدے پر عملدرآمد کیلئے آپریشن کا آغاز کیا