افغانستان: رہائیوں کا ریلا اور علاقائی سیکیورٹی کا ابھرتا ہوا بحران

| شائع شدہ |16:37


تحریر: احمد علی

اسلامی امارتِ افغانستان کی سپریم کورٹ کے حالیہ حکم کے تحت 7 ہزار 521 قیدیوں کی رہائی یا سزاؤں میں کمی نے پاکستان کے لیے فوری اور گہرا سیکیورٹی چیلنج پیدا کر دیا ہے۔ اگرچہ اس فیصلے کو عدالتی نرمی کا اقدام قرار دیا گیا ہے، لیکن اسے خطے کے لیے ایک خطرناک اور غیر مستحکم کرنے والی پیش رفت سمجھا جا رہا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق مجموعی طور پر 3 ہزار 204 قیدیوں کو مکمل طور پر معاف کر کے رہا کیا گیا، جبکہ 4 ہزار 317 قیدیوں کی سزاؤں میں کمی کی گئی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ رہائی پانے والوں میں بڑی تعداد ایسے سخت مجرموں اور شدت پسندوں کی ہے جن کے انتہا پسند تنظیموں سے روابط پہلے سے موجود تھے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کابل کی جانب سے دیا گیا یہ “پاردن” دراصل تربیت یافتہ جنگجوؤں—جن میں ممکنہ طور پر خودکش حملہ آور بھی شامل ہو سکتے ہیں—کو پاکستان کی جانب دھکیلنے کے مترادف ہے۔

ان افراد کے بارے میں امکان ہے کہ وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی صفوں میں فوری اضافہ کریں گے یا خودمختار گروہوں کی شکل میں سرگرم ہو کر سرحد پار حملوں اور پاکستان کے اندر عدم استحکام میں اضافہ کریں گے۔

علاقائی خطرے میں مزید اضافہ

افغانستان کی جاری داخلی بے چینی صورتحال اس خطرے کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بہت سے تجربہ کار اور لڑائی کے عادی رہائی پانے والے افراد اگر افغانستان میں کوئی مضبوط زمین نہ پا سکے یا مایوسی کا شکار ہوئے تو وہ دیگر انتہائی پرتشدد گروہوں، خصوصاً داعش خراسان (ISKP)، کا رخ کر سکتے ہیں۔

یوں سابق جنگجوؤں کا شدت پسند تنظیموں سے اتحاد پورے خطے کے لیے خطرے کی سطح کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے، اور ایک ایسا معاملہ جو بظاہر افغان عدالتی نظام کا داخلی اقدام تھا، اب علاقائی سطح پر ایک سنگین سیکیورٹی بحران بن چکا ہے۔

اگرچہ عدالتی عمل میں جیل رپورٹس، صوبائی جائزوں اور چیف جسٹس کے حتمی فیصلے کی وضاحت کی گئی ہے، لیکن اصل تشویش اس قانونی طریقۂ کار سے زیادہ ان افراد کی نوعیت پر ہے جو رہا کیے گئے ہیں۔

پاکستان کے لیے بڑا چیلنج

ماہرین کے مطابق پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کو اب اس فیصلے کے ممکنہ نتائج کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا، کیونکہ ہزاروں ممکنہ طور پر خطرناک افراد کی رہائی نے جنوبی ایشیا میں دہشت گردی اور تشدد کے خطرات میں نمایاں اضافہ کر دیا ہے۔

نوٹ: اس کالم میں شائع ہونے ولی آراء مصنف کی اپنی ہیں اور کسی طرح خبر کدہ کی اقدار کی ترجمانی نہیں کرتی

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں