عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) نے اپنی "گورننس اور کرپشن تشخیص رپورٹ” (GCDA) میں پاکستان کے اندرونی آڈٹ میکنزم کی غیر موجودگی اور آئینی و پارلیمانی نگرانی کے کمزور ہونے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ فنڈ نے خبردار کیا ہے کہ ان خامیوں کی وجہ سے وفاقی سطح پر اندازاً 40 کھرب روپے اور صوبوں میں اس سے بھی زیادہ عوامی فنڈز کو سنگین مالیاتی خطرات (Fiduciary Risks) لاحق ہیں۔
آئی ایم ایف نے سوال اٹھایا ہے کہ آئینی خودمختاری کے باوجود آڈیٹر جنرل کا دفتر اب بھی فیڈرل سیکرٹریٹ کے منسلکہ ادارے کے طور پر کیوں کام کر رہا ہے۔ اس بالواسطہ رپورٹنگ کا ڈھانچہ (وفاقی سیکرٹریٹ کے ذریعے وزیراعظم اور پھر صدر کو) آڈٹ کے عمل کی آزادی کو متاثر کر سکتا ہے-
فنڈ کے مطابق پبلک فنانس مینجمنٹ (PFM) ایکٹ 2019 کے باوجود، 2020 تک ہر ڈویژن میں چیف انٹرنل آڈیٹر (CIA) کی تعیناتی نہیں کی گئی۔
آڈیٹر جنرل کا دفتر ہر سال 6,000 سے زائد رپورٹس تیار کرتا ہے، لیکن پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (PAC) کی جانب سے ان پر برائے نام یا کوئی فالو اپ نہیں ہوتا۔ اس کے نتیجے میں، 34,000 سفارشات میں سے 75 فیصد اب بھی PAC میں زیر التوا ہیں- ان کے مطابق آڈٹ رپورٹس اکثر بہت لمبی اور بار بار کی سفارشات پر مشتمل ہوتی ہیں جس سے ان کا اثر کم ہو جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بجٹ چارجڈ اخراجات ہونے کے باوجود، آڈیٹر جنرل آفس کو مالیاتی ڈویژن سے بجٹ کی منظوری کے لیے رجوع کرنا پڑتا ہے جو اس کی عملی آزادی کو محدود کرتا ہے۔ عملے کی 1,500 افراد کی کمی بھی حکومتی منظوری نہ ملنے کی وجہ سے ہے۔
آئی ایم آیف کو نے ان اداروں کی ہدایت پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے PAC کے ضوابط اور AGP ایکٹ میں مناسب ترامیم کا مطالبہ کیا ہے۔ فنڈ نے عوامی جوابدہی کو بہتر بنانے کے لیے آڈٹ رپورٹس کو مختصر کرنے اور PAC کو انہیں فوری طور پر جائزہ لینے کا پابند کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔