ترکیہ کا ایک اعلیٰ سطح کا وفد اگلے ہفتے اسلام آباد پہنچنے والا ہے تاکہ پاکستان اور کابل کی طالبان حکومت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کم کی جاسکے۔ دی نیوز کے مطابق اس دورے کا مقصد مذاکرات کو بحال کرنا اور خطے میں امن کے لیے کوئی مؤثر راستہ نکالنا ہے۔
ترکیہ کے سفیر ڈاکٹر عرفان نظیروغلو نے دی نیوز سے گفتگو میں اس پیش رفت کی تصدیق کی۔ وہ عمان کے سفیر فہد سلیمان خلاف الکحروسی کی جانب سے عمان کے قومی دن کے موقع پر دیے گئے استقبالیے میں شریک تھے۔ انہوں نے کہا کہ انقرہ صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور مسئلے کے حل کے لیے مثبت کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔
اس دورے کا ذکر پہلی بار اس ماہ کے آغاز میں سامنے آیا تھا جب ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے باکو میں وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی۔ اس سے قبل استنبول میں پاکستان اور افغان حکام کے درمیان ہونے والی بات چیت کسی نتیجے کے بغیر ختم ہوگئی کیونکہ کابل انتظامیہ دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی پر آمادہ نہیں تھی۔
سفیر نظیروغلو، جو افغانستان سے متعلق استنبول سہ فریقی مذاکرات میں سرگرم کردار ادا کرتے رہے ہیں، نے بتایا کہ ترکیہ وفد میں انٹیلی جنس کے سربراہ سمیت اہم وزراء شامل ہوں گے۔ ان میں ترکیہ وزیر توانائی الپ ارسلان بائرقدار بھی شامل ہیں، جو اگلے ہفتے اسلام آباد پہنچیں گے۔
نظیروغلو کے مطابق ترکیہ یہ یقینی بنانا چاہتا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی دہشت گرد کارروائی کے لیے استعمال نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کو بھائیوں کی طرح رہنا چاہیے اور ترکیہ اس مقصد کے لیے ہر ممکن تعاون کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی اس وقت شدید ہوگئی جب 12 اکتوبر کو طالبان فورسز نے بھارت نواز تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، جسے فتنۂ خوارج بھی کہا جاتا ہے، کے ساتھ مل کر پاکستان پر بلااشتعال حملہ کیا۔ پاکستان نے بھرپور جوابی کارروائی کرتے ہوئے 200 سے زائد افغان طالبان اور شدت پسندوں کو ہلاک کیا، جبکہ آئی ایس پی آر کے مطابق پاک فوج کے 23 جوان اس جھڑپ میں شہید ہوئے۔
اس حملے کے جواب میں پاکستان نے افغانستان کے صوبہ قندھار، کابل اور شمالی و جنوبی وزیرستان کے سرحدی علاقوں میں ٹھیک نشانے پر کارروائیاں کیں اور متعدد شدت پسند ٹھکانوں کو تباہ کیا۔ اگرچہ 19 اکتوبر کو دوحہ میں دونوں ممالک کے درمیان عارضی جنگ بندی پر اتفاق ہوا تھا اور بعد ازاں استنبول میں مزید ملاقاتیں بھی ہوئیں، لیکن بات چیت آگے نہ بڑھ سکی۔ پاکستانی حکام کے مطابق افغان فریق ہٹ دھرمی پر قائم رہا اور دہشت گردی کے اصل مسئلے پر توجہ دینے کے بجائے پاکستان پر الزام تراشی کرتا رہا۔