امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کے روز ایک اہم پیشرفت میں سعودی عرب کو باضابطہ طور پر "میجر نان نیٹو اتحادی” (Major Non-NATO Ally) قرار دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان وائٹ ہاؤس میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اعزاز میں دیے گئے ایک عشائیے کے دوران کیا گیا۔
صدر ٹرمپ نے اس موقع پر کہا کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان عسکری تعاون کو نئی بلندیوں پر لے جا رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ عہدہ سعودی عرب کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اس کا اعلان پہلی بار کیا جا رہا ہے کیونکہ سعودی حکام اسے اس تقریب کے لیے ایک سرپرائز کے طور پر رکھنا چاہتے تھے۔
نان نیٹو اتحادی کا درجہ کی خصوصی حیثیت اب تک صرف 19 دیگر ممالک کو حاصل ہے جن میں خطے کے ممالک اسرائیل، اردن، کویت اور قطر شامل ہیں۔ یہ درجہ امریکہ کے شراکت داروں کو فوجی اور اقتصادی مراعات فراہم کرتا ہے تاہم اس میں نیٹو (NATO) کی طرز پر ‘سیکیورٹی کے وعدے’ (Security Commitments) شامل نہیں ہوتے۔
دونوں ممالک نے ایک "اسٹریٹجک ڈیفنس ایگریمنٹ” دفاعی معاہدہ پر دستخط کیے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق، یہ معاہدہ مشرقِ وسطیٰ میں ڈیٹرنس (دفاعی روک تھام) کو مضبوط کرے گا اور امریکی دفاعی کمپنیوں کے لیے سعودی عرب میں کام کرنا آسان بنائے گا۔ تاہم، یہ معاہدہ اس باقاعدہ نیٹو طرز کے معاہدے سے کچھ کم ہے جس کی خواہش ابتدا میں سعودی عرب نے ظاہر کی تھی۔
وائٹ ہاؤس نے تصدیق کی ہے کہ صدر ٹرمپ نے سعودی عرب کو جدید ترین ایف-35 (F-35) لڑاکا طیاروں کی مستقبل میں فراہمی کی منظوری دے دی ہے۔ یہ پہلی بار ہوگا کہ امریکہ ریاض کو یہ سٹیلتھ طیارے فروخت کرے گا جو کہ خطے میں طاقت کے توازن کو تبدیل کر سکتا ہے۔ یاد رہے کہ اب تک مشرقِ وسطیٰ میں صرف اسرائیل کے پاس یہ طیارے موجود تھے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب نے 300 امریکی ٹینک خریدنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
سعودی ولی عہد نے امریکہ میں سعودی سرمایہ کاری کو 600 بلین ڈالر سے بڑھا کر 1 ٹریلین ڈالر تک لے جانے کا وعدہ کیا، حالانکہ اس کی ٹائم لائن یا تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔ مزید برآں، دونوں ممالک نے سول نیوکلیئر انرجی تعاون کے لیے قانونی بنیاد فراہم کرنے والے ایک مشترکہ اعلامیے پر بھی دستخط کیے۔
سعودی ولی عہد نے پرتپاک استقبال پر صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات 9 دہائیوں پر محیط ہیں اور آج اقتصادی تعاون کا افق پہلے سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔