پیغامِ پاکستان: استحکام اور فکری اعتدال کا قومی بیانیہ

پاکستان کے جید علماء کی طرف سے جاری کیا گیا پیغامِ پاکستان ایک جامع قومی میثاق ہے جو ملک کو درپیش انتہا پسندی اور فرقہ واریت جیسے چیلنجز کا بھرپور اسلامی اور آئینی جواب فراہم کرتا ہے۔ یہ دستاویز مختلف جہتوں سے ریاست کے استحکام، فکری اعتدال اور پرامن بقائے باہمی کے اصولوں کو اجاگر کرتی ہے۔

عہد کی پابندی اور قومی چارٹر کی اہمیت

پیغامِ پاکستان کا مرکزی نقطہ عہد کی پاسداری اور وفاداری ہے۔ یہ انتہا پسند عناصر کے اس رجحان کی سختی سے مذمت کرتا ہے جو مذہب کے نام پر قومی شہری میثاق (آئین) کو مسترد کرتے ہیں یا بین الاقوامی معاہدات کی مخالفت کرتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے تمام وعدوں اور معاہدوں کو پورا کرنا فرض ہے اور ان کی خلاف ورزی، خصوصاً سرحد پار جا کر مسلح بغاوتوں میں حصہ لینا، خیانت اور فساد فی الارض کے زمرے میں آتا ہے،جس کی قرآن و حدیث میں سخت مذمت کی گئی ہے۔ قرآن کریم (المائدہ: 1) میں "اپنے عہد و پیمان پورے کرو” کی تاکید موجود ہے اور نبی اکرم ﷺ نے خیانت کرنے والے کو قیامت کے دن سخت انجام سے خبردار فرمایا۔ آئینِ پاکستان اور بین الاقوامی معاہدات دراصل مقاصدِ شریعت (جان، دین، عقل، نسل اور مال کا تحفظ) سے ہم آہنگ ہیں، لہٰذا ان کی خلاف ورزی امن اور عدل کے اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔ قومی چارٹر کو نظر انداز کرنا ریاست کو کمزور کرتا ہے اور اسلام کی عالمی شبیہ کو نقصان پہنچاتا ہے۔

جہاد اور قتال کا صرف ریاستی اختیار

اسلامی شریعت اس اصول پر واضح ہے کہ جہاد اور قتال کا اختیار صرف اسلامی ریاست کی عملداری میں آتا ہے۔ یہ فیصلہ کسی فرد، گروہ یا جتھے کا نہیں ہو سکتا۔ قرآن مجید میں اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے اور زمین میں فساد پھیلانے (فساد فی الارض) والوں کے لیے سخت سزاؤں کا ذکر ہے (المائدہ: 33)۔ اسی طرح نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "جس نے ہمارے خلاف ہتھیار اٹھایا، وہ ہم میں سے نہیں” (صحیح بخاری)۔ انسانی جان کے تقدس کے پیش نظر جان کے متعلق کوئی بھی فیصلہ کرنے کے لیے ایک جامع ریاستی اتھارٹی ضروری ہے جسے اپنے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری تفویض کی گئی ہے۔ اگر یہ اختیار غیر ریاستی عناصر کو دے دیا جائے تو وہ اپنے ذاتی، سیاسی یا فروعی مفادات کے تحت فساد فی الارض کا ارتکاب کریں گے۔ پیغامِ پاکستان نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا ہے کہ پاکستان میں نفاذ شریعت کے نام پر طاقت کا استعمال، ریاست کے خلاف مسلح محاذ آرائی اور دہشت گردی کی تمام صورتیں ممنوع، قطعی حرام اور ریاست کے خلاف بغاوت ہیں جو واجبِ تعزیر جرم ہے۔

سعودی عرب کا ماڈل اور پاکستان کے لیے اسباق

سعودی عرب کا انسدادِ انتہاپسندی (CVE) ماڈل ایک کامیاب حکمت عملی ہے جس میں مذہبی علم، نفسیاتی بحالی اور سماجی بحالی (Reintegration) کو ایک ریاستی فریم ورک میں ضم کیا گیا ہے۔ محمد بن نایف مرکز برائے مشاورت و نگہداشت کا قیام اس بات کا ثبوت ہے کہ ذہنی اصلاح صرف سزا سے زیادہ مؤثر ہے۔ یہ ماڈل اسلامی تعلیمات سے ماخوذ ہے، کیونکہ قرآن زمین میں فساد پھیلانے کو حرام قرار دیتا ہے (الاعراف: 56)۔ پاکستان اس تجربے سے سبق لیتے ہوئے، پیغامِ پاکستان کو بحالیاتی پروگراموں، مدارس کی اصلاحات اور سماجی ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ ہم آہنگ کر سکتا ہے۔ قومی سلامتی صرف سرحدوں کی حفاظت پر نہیں، بلکہ دلوں اور اذہان کی فکری اصلاح پر منحصر ہے۔

بین المذاہب ہم آہنگی اور آئینی حقوق

پاکستان کا آئین ایک کثیرالمذاہب ریاست کے طور پر تمام شہریوں کو مذہبی آزادی، مساوی شہریت اور پرامن بقائے باہمی کی ضمانت دیتا ہے (آرٹیکل 20)۔ قرآن و سنت کا بنیادی اصول انسانیت کا احترام، عدل اور دوسروں سے حسنِ سلوک ہے، جیسا کہ اللہ نے فرمایا: "اور لوگوں سے نرمی اور بھلائی کی بات کرو” (البقرہ: 83)۔ ایک اور آیت میں غیر محارب لوگوں کے ساتھ انصاف اور نیکی کرنے کا حکم ہے (الممتحنہ: 8)۔ نبی اکرم ﷺ نے اپنے غیر مسلم شہریوں کے تحفظ اور ان سے عدل و احسان کا نمونہ پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ جس نے کسی غیر مسلم شہری پر ظلم کیا، قیامت کے دن میں اس کا فریق ہوں گا۔ مذہبی انتہا پسندی اور امتیازی سلوک نہ صرف آئین، بلکہ شریعت کے بھی خلاف ہے۔ پیغامِ پاکستان اس بات پر زور دیتا ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ محض قانون نہیں، بلکہ ایک قرآنی فریضہ ہے۔

انتہا پسندی کے خلاف خواتین کا تعمیری کردار

اسلام نے عورت کو علم، اصلاحِ معاشرہ اور فکری قیادت میں ایک فعال اور برابر کا شریک قرار دیا ہے۔ قرآن (التوبہ: 71) میں ہے کہ مؤمن مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، جو نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں۔ تاریخِ اسلام میں حضرت خدیجہؓ، حضرت عائشہؓ اور اُمّ سلمہؓ جیسی شخصیات نے عملی طور پر اس فکری جہاد کی مثالیں قائم کیں۔ چونکہ دہشت گرد گروہ اکثر نوجوانوں اور خواتین کو گمراہ کرتے ہیں، اس لیے خواتین گھروں، مدارس اور یونیورسٹیوں میں امن، علم اور برداشت کی معلم بن کر اس بیانیے کو بدلنے کی طاقت رکھتی ہیں۔ پیغامِ پاکستان نے بھی خواتین کو قومی ہم آہنگی کا بنیادی ستون قرار دیا ہے۔ خواتین کی تعلیم، دینی فہم اور سماجی کردار میں شمولیت اسلام کے اس اصول کو زندہ کرتی ہے کہ اصلاح اور امن میں عورت مرد کی برابر شریک ہے۔

پیغامِ پاکستان کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام کی حقیقی پیروی آئین و معاہدات کے احترام، انصاف اور امن کے فروغ میں ہے اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے فکری اصلاح، ریاستی رٹ کا احترام اور بین المذاہب رواداری ناگزیر ہے۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں