ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا ناکام ہونا مستقبل میں افغان طالبان کے لیے بہت سے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ ماہرین کی رائے میں پاکستان چاہتا تھا کہ دونوں ممالک کے مسائل بات چیت کے ذریعے حل ہو جائیں لیکن مبینہ طور پر افغانستان کی طرف سے رکاوٹیں ڈالنے کے بعد یہ مذاکرات ناکام ہو گئے جس سے دونوں ممالک کے تعلقات خراب ہو رہے ہیں۔
دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ اور پاکستانی کارروائیاں
ماہرین کے مطابق امن مذاکرات کے دوران بھی افغانستان سے پاکستان کی طرف دہشت گردوں کا داخلہ جاری رہا۔ پاکستانی حکام نے بتایا ہے کہ مذاکرات کے دوران انہوں نے افغانستان سے آنے والے درجنوں دہشت گردوں کو ہلاک کیا۔ حکام کے مطابق، صرف پیر اور منگل کے دن بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں 27 سے زائد دہشت گرد ہلاک کیے گئے۔ حکام نے یہ بھی بتایا کہ حملہ آوروں میں کئی ایسے تھے جن کے پاس افغانستان کے شہریت کے دستاویزات تھے اور وہ فتنہ الخوارج (ٹی ٹی پی) کے صفوں میں شامل ہو گئے تھے۔ پاکستان نے واضح کیا ہے کہ اگر اس کی سرزمین پر حملہ ہوا تو اس کے بدلے میں دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں کرے گا۔
مذاکرات کی ناکامی پر تجزیہ کاروں کی آراء
تجزیہ کاروں نے مذاکرات کی ناکامی کے حوالے سے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔
افغان امور کے ماہر اسد یوسفزئی نے کہا کہ جاری مذاکرات سے اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ باتیں ناکام ہو جائیں گی کیونکہ افغان طالبان نہیں چاہتے تھے کہ معاہدہ تحریری شکل میں آئے۔
اسد یوسفزئی نے خبر کدہ کو بتایا کہ پاکستان کا اہم مطالبہ یہ تھا کہ افغانستان کی سرزمین پر ٹی ٹی پی اور پاکستان کے خلاف دیگر دہشت گرد گروہوں کا وجود ختم کیا جائے۔
ان کے مطابق، "افغان طالبان کا سوچ گریٹر امارت اسلامی کا ہے یعنی سرحدوں کی وہ پرواہ نہیں کرتے، جیسے داعش ہے، ویسے طالبان بھی ہیں لیکن ان کا نظریہ کچھ نرم ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ قریبی ممالک میں اپنا نظریہ نافذ کریں”۔
امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ سے وابسطہ سینئر صحافی حق نواز خان کے مطابق مذاکرات سے یہ امیدیں تھیں کہ دونوں ممالک کسی معاہدے تک پہنچیں گے اور دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام ہو جائے گی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ خبر کدہ کے نامہ نگار سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ قطر میں کچھ نہ نکلا اور جنگ بند ہوئی لیکن استنبول میں مختلف مراحل میں باتیں ہوئیں لیکن کسی معاہدے تک نہ پہنچ سکے۔
حق نواز خان نے پاکستان کا اہم مطالبہ دہرایا کہ افغانستان ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی چھوڑ دے۔ ان کے مطابق افغانستان بار بار کہتا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں کرتے لیکن عالمی اداروں اور پاکستان کی طرف سے بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ مسلح گروہ افغانستان کی سرزمین پر موجود ہیں۔
سابق سفارتکار عمر خان علی شیرزئی نے طالبان عبوری حکومت کے وزیرخارجہ کی حالیہ دنوں بھارت کے دورے کو اس کشیدیگی کا ایک اہم عنصر کو قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق افغانستان بھارت کے ہاتھوں کھیل رہا ہے لیکن نقصان افغانستان کا ہو گا۔
شیرزئی نے خبرکدہ سے حالیہ خصوصی انٹرویو میں خدشہ ظاہر کیا کہ اگر افغانستان کے ساتھ جنگ شروع ہوئی تو پاکستان مشرقی اور مغربی دونوں بارڈر پر جنگ میں مصروف ہو جائے گا۔ تاہم، انہوں نے یقین دلایا کہ "پاکستانی فوجی طاقت اتنی ہے کہ دونوں بارڈروں پر لڑ سکیں اور پاکستان نہیں چاہتا تھا کہ دوسرے بارڈر پر جھگڑا پیدا ہو”۔
مذاکرات کی ناکامی پر پاکستان کا مؤقف
پاکستان نے مذاکرات کی ناکامی کی تصدیق کی اور اس پر کابل کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے سوشل پلیٹ فارم «ایکس» پر لکھا کہ پاکستان اور کابل کے درمیان استنبول میں ہونے والی بات چیت کسی "عملی اور پائیدار حل” کے حصول میں ناکام رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے دہشت گردی کے خلاف تمام ممکنہ اقدامات جاری رکھے گا۔ عطاء اللہ تارڑ کے مطابق مذاکرات کا بنیادی ایجنڈا یہ تھا کہ افغان سرزمین ٹی ٹی پی (فتنہ الخوارج) اور بی ایل اے (فتنہ الہند) جیسے دہشت گرد گروہوں کے لیے تربیت، لاجسٹک سپورٹ اور حملوں کے آغاز کی اڈے کے طور پر استعمال نہ ہو۔تارڑ نے بتایا کہ افغان وفد نے پاکستان کے منطقی اور جائز مطالبات تسلیم کیے لیکن عملی اور قابل اعتماد وعدوں سے گریز کیا اور بحث کو الزامات، تاخیر اور بہانوں کی طرف موڑ دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے کابل کے اقتدار میں آنے کے بعد سے مسلسل بھارت کی حمایت یافتہ ان گروہوں کی طرف سے سرحدی دہشت گرد سرگرمیوں کا مسئلہ اٹھایا ہے لیکن یہ کوششیں طالبان کی طرف سے ان گروہوں کی مسلسل حمایت میں اضافے کی وجہ سے بے نتیجہ رہی ہیں۔
وزیر اطلاعات نے زور دیا کہ پاکستان کی چار سالہ جانی اور مالی قربانیوں کے بعد صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے، کیونکہ طالبان پاکستان کی سیکیورٹی خدشات کے بارے میں سنجیدہ رویہ نہیں اپنا رہے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے خبر رساں ادارے جیو نیوز کی ایک نشریات میں کہا تھا کہ دونوں فریق ایک معاہدے کے قریب پہنچ رہے تھے، لیکن کابل کی مداخلت اور پیچھے ہٹنے کی وجہ سے عمل رکاوٹ کا شکار ہوا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ بات چیت "سبوتاژ” کی گئی اور کابل بھارت کے اثر و رسوخ میں دہلی کے آلے کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔
ترکی اور قطر نے بات چیت کو بچانے کی کوششیں کیں، لیکن ناقابل تلافی اختلافات کی وجہ سے باتیں عارضی طور پر رک گئیں۔ پاکستانی حکام نے واضح کیا تھا کہ افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے نہ ہونے کی قابل اعتماد اور تصدیق شدہ ضمانتوں کے بغیر کوئی معاہدہ قبول نہیں کیا جا سکتا۔
افغانستان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کیوں نہیں کراتا؟
علاقائی سیکیورٹی صورتحال پر نظر رکھنے والے صحافی ریاض خان کے مطابق افغانستان کے یقین دہانی نہ کرانے کی بنیادی وجہ داعش خراسان (داعش) کا خطرہ ہے۔ ان کے مطابق افغان طالبان کو خوف ہے کہ اگر ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کی گئی تو ان کے ارکان پھر داعش خراسان میں شامل ہو جائیں گے۔
خبرکدہ کو ریاض خان نے بتایا کہ داعش کے ساتھ ساتھ افغان طالبان این آر ایف (قومی مزاحمتی محاذ) کی شکل میں اور اپنے اندرونی اختلافات کا بھی شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ‘اس وقت ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنے میں افغانستان اپنا بہت نقصان دیکھ رہا ہے۔’
ان حالات میں "افغان طالبان کو پھر داعش خراسان، این آر ایف اور اندرونی جنگ کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہو جائے گا ایسے وقت میں جب ملک مالی مسائل کا شکار ہے اور عالمی سطح پر دیگر ممالک نے بھی سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا” انہوں نے بتایا۔
کابل کی جانب سے "الزامات، تاخیر اور بہانوں” کی حکمت عملی نے پاکستان کو یہ واضح کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین اور شہریوں کے دفاع کے لیے یکطرفہ کارروائیاں جاری رکھے گا۔ اگرچہ پاکستان دونوں سرحدوں پر لڑنے کی فوجی طاقت رکھنے کا دعوی کرتا ہے لیکن مذاکرات کا ٹوٹنا غیر یقینی اور کشیدگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہے، جس کا سب سے زیادہ نقصان مالی بحران اور بین الاقوامی سطح پر غیر تسلیم شدہ افغانستان کو ہی ہو گا۔ اب تمام تر توجہ پاکستان کی آئندہ حکمت عملی اور علاقائی اسٹیک ہولڈرز (ترکی اور قطر سمیت) کی جانب سے اس تعطل کو ختم کرنے کی کوششوں پر مرکوز رہے گی۔
 
				 
															 
								 
								 
								 
								 
								 
								 
								