پاکستان نے استنبول میں ہونے والے مذاکرات کے دوران افغان طالبان کے سامنے “واضح، ثبوتوں پر مبنی اور عملی” مطالبات رکھے ہیں، جن میں طالبان سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے پاکستان پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے روکے۔ تاہم، سیکیورٹی حکام کے مطابق طالبان کی حقیقت تسلیم نہ کرنے اور ضدی رویے نے ان کے تعاون کے ارادوں پر شدید شکوک پیدا کر دیے ہیں۔
ذرائع کے مطابق افغان وفد نے مذاکرات میں لچک دکھانے سے گریز کیا ہے جسے ثالثی کرنے والے دیگر ممالک نے بھی محسوس کیا ہے۔ ترکی جو ان مذاکرات کی میزبانی کر رہا ہے، طالبان وفد کو پاکستان کے خدشات کی سنگینی اور پیش کیے گئے ثبوتوں کی اہمیت سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ مذاکرات کا نتیجہ طالبان کے خلوص نیت اور رویے کی تبدیلی پر منحصر ہوگا۔
تازہ دور کے مذاکرات میں پاکستان نے واضح کر دیا کہ وہ افغان سرزمین سے پاکستان پر حملے کرنے والے شدت پسندوں کو کسی بھی قسم کی پناہ یا مدد برداشت نہیں کرے گا۔ پاکستانی وفد نے کابل سے مطالبہ کیا کہ وہ افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کے لیے مضبوط اور واضح اقدامات کرے۔ حکام کے مطابق طالبان کے دلائل “غیر حقیقی اور حقائق سے دور” تھے، جس سے ان کے امن کے عزم پر مزید شبہات پیدا ہوئے۔
استنبول کے یہ مذاکرات دوحہ میں 19 اکتوبر کو ہونے والے پہلے دور کے بعد ہو رہے ہیں، جن میں قطر اور ترکی نے ثالثی کی تھی۔ ان ابتدائی بات چیت کے دوران دونوں ممالک نے سرحدی جھڑپوں کے بعد عارضی جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا، جن میں متعدد افراد ہلاک ہوئے۔ پاکستان نے طالبان اور ان کے اتحادی جنگجوؤں کی جانب سے سرحدی چوکیوں پر بلااشتعال حملوں کے جواب میں جوابی کارروائیاں کیں۔
جھڑپوں کے بعد پاکستانی فوج نے افغانستان کے قندھار اور کابل میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر ہوائی حملے کیے، جن میں متعدد دہشت گرد مراکز تباہ ہو گئے۔ ان کارروائیوں میں 200 سے زائد طالبان اور ان کے اتحادی جنگجو ہلاک ہوئے، جبکہ پاکستان کے 23 فوجی شہید ہوئے۔ اس کے بعد پاکستان نے اہم سرحدی راستے بند کر دیے، یہ مؤقف اپناتے ہوئے کہ پاکستانی عوام کی جانوں کا تحفظ تجارت سے زیادہ اہم ہے۔
کشیدگی کے دوران، وزیر دفاع خواجہ آصف نے طالبان حکومت پر بھارت کا آلہ کار بننے کا الزام لگایا اور خبردار کیا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو پاکستان مکمل جنگ کے لیے تیار ہے۔ سیالکوٹ میں گفتگو کرتے ہوئے آصف — جو دوحہ مذاکرات میں پاکستانی وفد کی قیادت کر رہے تھے — نے کہا کہ پچھلی بات چیت میں امن کی خواہش کے کچھ آثار ضرور دیکھے گئے، لیکن پاکستان اپنی سلامتی اور قومی مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔