طورخم سرحد کھلنے کی تیاری، تجارت کا جمود جلد ٹوٹنے کا امکان

تحریر: ریاض حسین

پاکستان اور افغانستان کے درمیان دو طرفہ تجارت کے لیے طورخم تجارتی گیٹ وے کو دوبارہ کھولنے کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں، کسٹم حکام نے پیر کو خبر کدہ کو اس بات کی تصدیق کی ہے۔ حکام نے بتایا کہ توقع ہے کہ یہ اہم سرحدی کراسنگ جلد ہی آپریشنل ہو جائے گی ممکنہ طور پر کل سے ہی اس کا دوبارہ آغاز ہو جائے گا، جو دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان رکی ہوئی تجارت کی بحالی میں ایک پیش رفت کا اشارہ ہے۔

کسٹم ذرائع کے مطابق عملے کو طورخم ٹرمینل پر دوبارہ تعینات کر دیا گیا ہے اور کلیئرنس کے طریقہ کار کو آسان بنانے کے لیے کارگو سکینر بھی نصب کر دیے گئے ہیں۔ سرحد پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کی وجہ سے یہ اہم گزرگاہ پچھلے نو دنوں سے بند تھی جس کے نتیجے میں سرحد کے دونوں اطراف ہزاروں مال بردار ٹرک پھنسے ہوئے تھے۔

اس بندش نے درآمدات، برآمدات اور ٹرانزٹ ٹریڈ کو مفلوج کر دیا ہے۔ پاکستان افغانستان کو سیمنٹ، ادویات، ٹیکسٹائل، پھل اور سبزیاں برآمد کرتا ہے، جبکہ وہاں سے کوئلہ، صابن کا پتھر (Soapstone) اور خشک و تازہ پھل درآمد کرتا ہے۔

کسٹم ڈیٹا کے مطابق اکیلے طورخم کراسنگ روزانہ اوسطاً 850 ملین روپے کی دو طرفہ تجارت کو سنبھالتی ہے جس میں 580 ملین روپے کی برآمدات اور 250 ملین روپے کی درآمدات شامل ہیں اور یہ پاکستان کے قومی خزانے میں روزانہ تقریباً 50 ملین روپے کا حصہ ڈالتی ہے۔

قطر کی ثالثی میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی کے باوجود اہم تجارتی راستے اب بھی بند ہیں جس سے دونوں جانب کے تاجر اور کاروباری افراد پریشانی کا شکار ہیں۔ سفارتی کامیابی کے طور پر سراہے جانے والے اس سیزفائر کا اب تک معاشی ریلیف میں کوئی ترجمہ نہیں ہو سکا ہے۔

حکام نے تصدیق کی ہے کہ سرحدی سرگرمیوں کو معمول پر لانے کی وسیع تر کوششوں کے تحت بلوچستان میں چمن کراسنگ اور خیبر پختونخوا میں غلام خان اور خارلاچی کی سرحدی چوکیاں بھی آنے والے دنوں میں دوبارہ کھل سکتی ہیں۔

اسلام آباد اور کابل کے درمیان تعلقات حالیہ مہینوں میں سرحدی جھڑپوں اور پاکستان کے ان الزامات کے بعد خراب ہوئے ہیں کہ افغان طالبان کالعدم تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے عسکریت پسندوں کو پناہ دے رہے ہیں۔ کابل نے ان دعووں کو مسترد کیا ہے۔

تجزیہ کاروں نے نوٹ کیا کہ افغانستان میں حالیہ انٹرنیٹ بندش کے دوران ٹی ٹی پی سے منسلک کئی آن لائن چینلز بند ہو گئے تھے جسے افغان سرزمین کے اندر ان کی موجودگی کے بالواسطہ ثبوت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

دریں اثنا، عسکریت پسندی کے خلاف روایتی محاذ خیبر پختونخوا میں بدستور کشیدگی برقرار ہے۔ اس سال سینکڑوں پاکستانی فوجی عسکریت پسندوں کے حملوں میں اپنی جانیں گنوا چکے ہیں، جس سے مقامی کمیونٹیز نئی شورش اور سیکیورٹی آپریشنز کے درمیان پھنس کر رہ گئی ہیں۔

اگرچہ دونوں حکومتوں نے دوحہ امن فریم ورک سے اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے لیکن تاجروں کا کہنا ہے کہ زمینی حقیقت سنگین ہے۔ پشاور کے ایک تجزیہ کار نے مشاہدہ کیا کہ "سیزفائر سکون تو لایا، لیکن تجارت نہیں۔”

تجارت کی دو بڑی اقسام، ٹرانزٹ ٹریڈ اور جنرل ایکسپورٹس ہیں جو دونوں شدید متاثر ہوئی ہیں۔ پاکستان کی برآمدات جیسے تعمیراتی سامان اور ٹیکسٹائل تاخیر کو برداشت کر سکتی ہیں لیکن افغانستان کا جلد خراب ہونے والا سامان سب سے زیادہ نقصان اٹھا رہا ہے۔

بارڈرز معاملات پر نظر رکھنے والے ایک مقامی صحافی نے خبر کدہ کو بتایا کہ "بدقسمتی سے طالبان حکام اپنے تاجروں کو درپیش مالی نقصانات سے لاتعلق نظر آتے ہیں،” انہوں نے کابل سے محاذ آرائی کی بجائے مذاکرات کو ترجیح دینے پر زور دیا۔

پاکستان-افغانستان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق چیئرمین، خان جان الکوزئی کے مطابق، بندش سے پہلے روزانہ تقریباً 2,000 ٹرک سرحد عبور کرتے تھے۔ اب، نقل و حرکت رکنے کے ساتھ، افغان زرعی پیداواربشمول انگور، سیب اور سبزیاں کو کوڑیوں کے دام پھینکا جا رہا ہے۔

الکوزئی نے خبردار کیا، "دونوں ممالک پہلے ہی 700 ملین ڈالر سے زیادہ کا نقصان کر چکے ہیں، اور اگر ناکہ بندی جاری رہی تو یہ اعداد و شمار 1 بلین ڈالر سے تجاوز کر سکتا ہے۔”

دو طرفہ تجارت پہلے ہی 2 بلین ڈالر سے کم ہو کر 1.5 بلین ڈالر پر آ چکی ہے جبکہ 700 سے زیادہ افغان ٹرانزٹ کنٹینرز کراچی اور پورٹ قاسم پر پھنسے ہوئے ہیں جس سے کنجشن اور بھاری ڈیمریج چارجز پیدا ہو رہے ہیں۔

سرحدوں پر جاری ناکہ بندیوں نے افغانستان کے تجارتی راستوں کے لیے پاکستان پر انحصار بمقابلہ بھارت کی مدد سے تیار کردہ ایران کی چابہار بندرگاہ پر بڑھتے ہوئے انحصار پر بحث کو ایک بار پھر زندہ کر دیا ہے۔

تاریخی طور پر 70 سے 80 فیصد افغان تجارت پاکستان کے کراچی-طورخم راہداری سے گزرتی ہے جو اس کی سستی اور بہتر کارکردگی کے لیے جانا جاتا ہے۔ چابہار فی الحال افغان درآمدات کا 15 سے 20 فیصد سنبھالتی ہے لیکن زیادہ لاگت اور کمزور انفراسٹرکچر کی وجہ سے اس کی صلاحیت محدود ہے۔

ایک تجزیہ کار نے تبصرہ کیا، "افغانستان کا چابہار کی طرف جھکاؤ شاید سیاسی علامتی اہمیت رکھتا ہو لیکن حقیقی تجارت کے لیے کراچی اور طورخم اب بھی ناقابل تلافی ہیں۔”

ٹرک اونرز ایسوسی ایشن کے صدر شاکر خان آفریدی نے کہا کہ سینکڑوں ٹرک خراب ہونے والے سامان کے ساتھ سرحد پر پھنسے ہوئے ہیں۔

انہوں نے خبر کدہ کو بتایا کہ "تجارت پاکستان اور افغانستان کے درمیان اصل پل ہے۔ صرف سیزفائر استحکام نہیں لا سکتا مگر تجارت اور تعاون لا سکتے ہیں۔”

دونوں ممالک کی کاروباری برادریوں نے اس جذبے کی بازگشت سنائی، علاقائی امن اور معاشی استحکام کو فروغ دینے کے لیے سفارتی رابطے اور کھلی سرحدوں کا مطالبہ کیا۔

چونکہ پاکستان اور افغانستان اس سال کے آخر میں استنبول میں مذاکرات کے ایک اور دور کی تیاری کر رہے ہیں، مبصرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ دوحہ سیزفائر کی کامیابی کا اندازہ سرحد پر خاموشی سے نہیں، بلکہ تجارت کی بحالی سے کیا جائے گا۔

فی الحال بندوقیں تو خاموش ہو چکی ہیں لیکن تجارت کی خاموشی اب بھی طورخم، غلام خان اور خارلاچی کے پار گونج رہی ہے۔ جب تک ٹرک دوبارہ حرکت میں نہیں آئیں گے پاکستان اور افغانستان کے درمیان امن ایک نامکمل وعدہ ہی رہے گا۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں