کرکٹ کے میدان میں سیاست کا اثر پہلے بھارت پر یہ الزام لگ چکا ہے کہ وہ بڑے کرکٹ ٹورنامنٹس میں پاکستان کے ساتھ کھیلنے سے انکار کر کے کھیلوں کو سیاست سے ملا رہا ہے۔ اب افغانستان بھی بظاہر اسی راستے پر چل پڑا ہے۔ افغانستان نے پاکستان میں ہونے والی آئندہ سہ فریقی کرکٹ سیریز سے دستبرداری اختیار کر لی ہے۔ جس کا تعلق بظاہر پاکستان کی جانب سے افغانستان میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر کیے گئے فضائی حملوں سے ہے۔
کرکٹ کے ماہر حمزہ خان نے خبرکده نیوز پلیٹ فارم سے بات کرتے ہوئے کہا، "بھارت نے ماضی میں کھیل کو سیاست سے ملایا، اور اب افغانستان بھی اسی راہ پر چل رہا ہے۔” بین الاقوامی کھیلوں کے تجزیہ کاروں نے ہمیشہ کھیلوں کو عالمی سطح پر سیاست سے الگ رکھنے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔
افغانستان کا سیریز سے دستبرداری کا فیصلہ پاکستان کی جانب سے مبینہ طور پر افغانستان کے صوبہ پکتیکا میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر کیے گئے فضائی حملوں کے بعد سامنے آیا۔ سکیورٹی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پاکستان نے کالعدم حافظ گل بہادر گروپ کو نشانہ بناتے ہوئے افغانستان کے اضلاع ارگون اور برمل، اور انگور اڈہ کی سرحد کے قریب ایئر سٹرائیکس کیں۔ جن میں درجنوں عسکریت پسند مارے گئے۔ یہ حملے اس وقت ہوئے جب اسلام آباد اور کابل نے ابھی چند گھنٹے قبل ہی 48 گھنٹے کی جنگ بندی میں توسیع پر اتفاق کیا تھا۔
یہ فضائی حملے جمع کو شمالی وزیرستان میں ایک پاکستانی فوجی کیمپ پر ہونے والے مہلک حملے کا جواب تھا۔ اس حملے میں حافظ گل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں نے میر علی میں کھڈی قلعہ میں دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑی ٹکرا کر کیمپ میں گھسنے کی کوشش کی تھی۔
پی سی بی کا موقف افغانستان کی دستبرداری کے باوجود، پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کا کہنا ہے کہ سری لنکا کے ساتھ ہونے والی یہ سیریز مقررہ شیڈول کے مطابق جاری رہے گی۔ پی سی بی کے ترجمان عامر میر نے کہا کہ افغانستان کی جگہ جلد ہی کسی تیسری ٹیم کو فائنل کر لیا جائے گا۔
پاک-افغان کشیدگی عروج پر اس دوران، پاکستان اور افغانستان کے درمیان اکتوبر 11 کو ہونے والی سرحدی جھڑپوں کے بعد صورتحال مزید کشیدہ ہو گئی ہے۔ پاکستان نے ان جھڑپوں میں اپنے 23 فوجیوں کی شہادت اور لگ بھگ 200 طالبان جنگجوؤں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا۔ افغان فریق نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ پاکستان کی جانب سے پہلے کیے گئے فضائی حملوں کا جواب دے رہے تھے، اگرچہ اسلام آباد نے اس دعوے کی سرکاری طور پر تصدیق نہیں کی۔
مسلسل افغانستان میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) عسکریت پسندوں کی موجودگی پر تشویش کا اظہار کرتا رہا ہے اور کابل سے مطالبہ کر رہا ہے کہ ان گروہوں کے خلاف کارروائی کی جائے، جنہیں افغان طالبان مبینہ طور پر "محفوظ پناہ گاہیں” فراہم کر رہے ہیں۔ تاہم، کابل عسکریت پسندوں کی حمایت کے الزامات کی تردید کرتا ہے اور پاکستان کو مشورہ دیتا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی سے براہ راست بات چیت کرے۔
وزراء کا سخت موقف جمع کو پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ کابل کے ساتھ ملک کے تعلقات "پہلے جیسے نہیں رہیں گے” اور مستقبل میں سخت رویہ اختیار کرنے کا اشارہ دیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی کہا ہے کہ اگر طالبان امن مذاکرات میں سنجیدہ ہیں، تو انہیں پہلا قدم اٹھانا چاہیے اور سرحد پار دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کی شرائط کو پورا کرنا چاہیے۔