پاک-افغان سرحدیں بند: سینکڑوں ٹرک پھنس گئے، روزانہ اربوں کا نقصان

گزشتہ ہفتے پاک-افغان سرحد پر ہونے والی جھڑپ کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی راستوں پر سینکڑوں مال بردار ٹرک پھنسے ہوئے ہیں جس سے اشیائے ضروریہ کی ترسیل متاثر اور دونوں ملکوں کے تاجروں کو شدید مالی نقصان ہو رہا ہے۔ تجارتی برادری نے اس تعطل کو فوری حل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

سرحدوں پر ٹرکوں کی طویل قطاریں

خیبر پختونخوا چیمبر آف کامرس کے سابق صدر شاہد حسین نے بتایا کہ تجارتی راستوں پر بڑی تعداد میں گاڑیاں کھڑی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ تورخم بارڈر کراسنگ پر 800 سے 900 ٹرک کھڑے ہیں جبکہ تقریباً 300 ٹرک ٹرمینل میں موجود ہیں۔حسین نے بتایا کہ 210 ٹرک کھڑے ہیں، جن میں سے 81 کی کلیئرنس ہو چکی ہے جبکہ غلام خان بارڈر پر 200 ٹرک کھڑے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ خرلاچی کراسنگ پر درجنوں ٹرک موجود ہیں۔

دوسری جانب تورخم کراسنگ کے اس پار ایک ہزار تک ٹرک کھڑے ہیں جبکہ خرلاچی اور غلام خان پر 250 تک ٹرک موجود ہیں۔

سبزیوں اور پھلوں سے لدے ٹرک واپس اپنے بازاروں کو لوٹ چکے ہیں، جن میں افغانستان سے آنے والے انگور، انار، ٹماٹر اور سیب لے جانے والی گاڑیاں شامل ہیں۔

افغانستان میں اشیائے ضروریہ کی قلت کا خدشہ

افغانستان کے تاجروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے سیمنٹ، لوہے اور دیگر اہم اشیاء کی بندش کے باعث افغانستان میں مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ پاک-افغان مشترکہ چیمبر آف کامرس کے سابق صدر خان جان الکوزی نے بتایا کہ افغانستان کے بازاروں میں سیمنٹ، ادویات اور چاول کی دستیابی مشکل ہو گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ خوراک کی اشیاء جیسے خوردنی تیل، آٹا اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء ایران اور دیگر ہمسایہ ممالک سے لائی جا رہی ہیں۔

خان جان الکوزی نے خبردار کیا کہ اگر راستوں کی بندش کا یہ سلسلہ طویل ہوا تو یہ افغانستان کے لیے مزید مشکلات پیدا کرے گا اور پاکستان کی معیشت پر بھی منفی اثر ڈالے گا۔

تجارتی حجم اور مالی نقصان

شاہد حسین کے مطابق افغانستان کے ساتھ تجارت کے لیے پاکستان کا راستہ سب سے آسان ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک وقت تھا جب دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم ڈھائی بلین ڈالر سے زائد تھا لیکن اب یہ کم ہو کر ایک ارب اسی کروڑ ڈالر تک رہ گیا ہے۔ شاہد کے مطابق روزانہ ایک ارب روپے سے زائد کا نقصان ہو رہا ہے۔ پاکستانی میڈیا رپورٹس کے مطابق، کراچی اور قاسم بندرگاہوں پر افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے 700 سے زائد کنٹینرز بھی پھنسے ہوئے ہیں۔

سب سے زیادہ نقصان کس کا؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تنازع دونوں ممالک کے لیے نقصان دہ ہے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان کو سب سے زیادہ نقصان ہو رہا ہے کیونکہ یہ ایک جنگ زدہ اور غریب ملک ہے۔ ماہرین کے مطابق افغانستان زیادہ عرصے تک پاکستان کے ساتھ تجارت منقطع نہیں رکھ سکتا۔

تاجروں کا مطالبہ اور خدشات

تجارتی برادری نے دونوں حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس تجارتی رکاوٹ کو فوری طور پر حل کریں۔ تاجروں نے خبردار کیا ہے کہ طویل مدتی خلل سے سپلائی چین کی خرابی، مالی عدم استحکام اور علاقائی تجارتی شراکت داروں کے درمیان اعتماد کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔

تجارتی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس تاخیر سے درآمدات کے اخراجات بڑھیں گے سرحدی بازار کی سرگرمیاں متاثر ہوں گی اور اسلام آباد اور کابل کے درمیان معاشی تعلقات مزید خراب ہوں گے جو پہلے ہی سیاسی اور سیکورٹی پیش رفت کے تناظر میں نازک ہیں۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں