خیبرپختونخوا کے نو منتخب وزیراعلیٰ سہیل افریدی نے پیر کے روز اسمبلی میں منتخب ہونے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں پاکستان کی مرکزی حکومت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ سے درخواست کی کہ وہ افغان پالیسی پر نظرثانی کریں اور خیبرپختونخوا میں فوجی آپریشن شروع کرنے سے پہلے یہاں کے لوگوں کو اعتماد میں لیں۔
نو منتخب وزیراعلیٰ سہیل افریدی کی تقریر پر تجزیہ نگاروں اور صحافیوں کا کہنا ہے کہ افغان پالیسی میں تبدیلی کسی ایک فرد یا جماعت کے کہنے پر نہیں ہو سکتی بلکہ اس میں تبدیلیاں پوری قوم اور پارلیمنٹ کے ذریعے کی جائیں گی۔
پشاور میں ایک طویل عرصے سےکام کرنے والے صحافی عرفان خان کا کہنا ہے کہ یہ بہت مشکل کام ہے کہ اگر ایک جماعت اور ان کے وزیراعلیٰ ریاست اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہوں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ انہی کے کہنے پر افغان پالیسی میں تبدیلی لائی جائے بلکہ ان کے مطالبے کو کوئی اہمیت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعلیٰ سہیل افریدی مطالبہ اور درخواست تو کر سکتے ہیں لیکن خارجہ پالیسی مرتب کرنا مرکزی حکومت کے دائرہ کار میں آتا ہے اور یہی طریقہ کار پوری دنیا میں رائج ہے اور یہ اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہوتا ہے۔
صحافی عرفان خان نے کہا کہ افغان پالیسی میں تبدیلی لانے کا مطالبہ کرنا وزیراعلیٰ کا قانونی اور آئینی حق ہے اور اس حوالے سے وہ اپنی رائے اور تجویز بھی دے سکتے ہیں۔ افغان طالبان اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اگر خیبرپختونخوا کی حکومت اس حوالے سے کوئی اقدامات اٹھاتی ہے تو پھر صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت میں اختلافات نظر آئیں گے اور ایک تناؤ کی صورتحال پیدا ہوگی۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ صوبائی حکومت کا وفد کیسے افغانستان جائے گا اور کس کی اجازت سے اور کون سی شرائط پر مذاکرات شروع کرے گا، اور اگر تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے مطالبات سامنے آ گئے تو صوبائی حکومت کے پاس ان مطالبات کو ماننے کا اختیار کہاں سے آئے گا؟
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے کئی مرتبہ واضح طور پر کہا ہے کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہوں گے اور اگر مذاکرات ہوں گے تو وہ امارت اسلامی (افغان طالبان) کی ثالثی میں ہوں گے لیکن پچھلے کئی مہینوں سے افغان طالبان کے ساتھ بھی حالات کشیدہ ہیں۔
نو منتخب وزیراعلیٰ سہیل افریدی نے اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ فوجی آپریشن مسئلے کا حل نہیں کیونکہ پچھلے کئی سالوں سے بیس سے زیادہ ملٹری آپریشن کیے گئے لیکن دہشت گردی اب بھی موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ دو روز قبل ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر چوہدری احمد شریف نے پشاور میں اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ چودہ ہزار (14,000) کے قریب انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن خیبرپختونخوا میں کیے گئے ہیں لیکن دہشت گردی ختم نہیں ہوئی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں واضح طور پر کہا کہ میرا قائد عمران خان جس طرح فوجی آپریشن کے خلاف ہے، اسی طرح میں بھی فوجی آپریشن کی اجازت نہیں دوں گا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے جمعے کے دن پشاور میں ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ 2024 (دو ہزار چوبیس) میں خیبرپختونخوا میں مجموعی طور پر چودہ ہزار پانچ سو سے (14,500) زیادہ انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے گئے جن میں سات سو ستر (770) سے زیادہ دہشت گرد مارے گئے اور اس کے ساتھ پانچ سو ستتر (577) فوجی، پولیس اور عام لوگ مارے گئے جن میں دو سو بہتّر (272) فوجی اور ایف سی اہلکار، ایک سو چالیس (140) پولیس اور 165 عام لوگ شامل تھے۔
اسی طرح 2025 میں دس ہزار ایک سو پندرہ (10,115) آپریشن کیے گئے جن میں ایک ہزار (1,000) سے زائد دہشت گردوں کو مارا گیا اور پانچ سو سولہ (516) جوانوں نے شہادت نوش کی جن میں تین سو (300) سے زیادہ افواج پاکستان کے اہلکار شامل تھے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ خیبرپختونخوا میں بدانتظامی کی وجہ سے خلا پیدا ہوگیا ہے جس کو افواج پاکستان، پولیس اور عام بچے اپنے خون سے پُر کر رہے ہیں، اور اگر گورننس کے اس خلا کو بہتر نہیں کیا جا سکتا تو دہشت گردی کے اس ناسور پر قابو کیسے پایا جا سکتا ہے؟
خیبرپختونخوا کے سابق انسپکٹر جنرل پولیس سید اختر علی شاہ نے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ اگر مذاکرات کیے بھی جائیں تو کیا وہ ہتھیار رکھنے کے لیے تیار ہو جائیں گے اور جو مطالبات وہ سامنے لاتے ہیں تو ان کو کیسے مانا جا سکتا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ طالبان اس بات پر کیسے راضی ہوں گے کہ وہ آئین پاکستان کو مانیں گے اور یہاں پر امن رہیں گے؟ تو میرے خیال میں اس وقت یہ کہنا کہ ان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں گے اور وہ ہتھیار پھینک دیں گے، یہ مشکل ہے۔ اختر علی شاہ نے مزید کہا کہ صوبائی حکومت کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ یا تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرے کیونکہ یہ وفاقی حکومت کی صوابدید ہے اور وہ ہی یہ فیصلہ کر سکتی ہے۔