خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس ٹریننگ سکول پر دہشت گردوں کا حملہ چھ گھنٹے طویل آپریشن کے بعد اختتام پذیر ہوگیا۔ اس واقعے میں میں 6 حملہ آور مارے گئے، جبکہ 7 پولیس اہلکار جام شہادت نوش کر گئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق یہ حملہ ڈیرہ اسماعیل خان کے رتہ کلاچی کے علاقے میں ہوا، جہاں بھاری ہتھیاروں سے لیس حملہ آوروں نے رات 9 بجے کے قریب پولیس تربیتی مرکز پر دھاوا بولنے کی کوشش کی۔ مقامی زرائع کے مطابق حملہ آوروں نے بارود سے بھرا ٹرک سکول کے مرکزی دروازے سے ٹکرایا، جس سے دیوار کا کچھ حصہ گر گیا اور ڈیوٹی پر موجود ایک پولیس افسر شہید ہوگیا۔ دھماکے کے بعد، ملے جلے یونیفارم پہنے حملہ آور احاطے میں داخل ہوئے اور اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ زرائع کے مطابق ایک اور اہلکار دستی بم کے حملے کی زد میں آکر شہید ہوا۔ پولیس اور عسکریت پسندوں کے درمیان کئی گھنٹوں تک شدید فائرنگ جاری رہی، جس دوران حملہ آوروں نے بار بار دستی بموں کا استعمال کیا۔
پولیس کے مطابق پولیس اور سیکیورٹی فورسز کے چھ گھنٹے طویل مشترکہ آپریشن کے بعد، تمام چھ عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ حکام نے جائے وقوعہ سے خودکش جیکٹس، دھماکہ خیز مواد، اور گولہ بارود برآمد کیا۔ حملے میں 13 دیگر افراد زخمی ہوئے جنہیں فوری طور پر طبی علاج کے لیے ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ تربیتی سکول میں موجود تمام ٹرینیز اور عملہ، جن کی تعداد تقریباً 200 تھی، کو بحفاظت نکال لیا گیا، جس سے ایک ممکنہ بڑے پیمانے پر ہونے والا سانحہ ٹل گیا۔
ڈی پی او صاحبزادہ سجاد احمد نے تصدیق کی کہ علاقے کو صاف کر دیا گیا ہے اور مزید سرچ اور کلیئرنس آپریشن جاری ہے۔
اسلام آباد میں قائم خبر رساں ادارہ دی خراسان ڈائری کی مانیٹرنگ ٹیم نے بتایا ہے کہ جماعت ‘اتحاد المجاہدین پاکستان ‘ سے منسلک اکاؤنٹس نے ٹرینگ سکول پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
یاد رہے کہ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے مطابق جمعرات کو ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن (IBO) کے دوران پاک فوج کے ایک افسر نے جام شہادت نوش کیا، جب کہ اس کارروائی میں بھارت کے حمایت یافتہ سات دہشت گرد مارے گئے۔
یہ آئی بی او دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر 8 اکتوبر کو دارابن کے علاقے میں کیا گیا تھا۔
فائرنگ کے شدید تبادلے والے اس آپریشن میں، پاک فوج کے میجر سبطین حیدر، جو اپنے دستوں کی قیادت کر رہے تھے اور بہادری سے لڑتے ہوئے ملک پر اپنی جان قربان کر دی، نے شہادت کا اعلیٰ رتبہ حاصل کیا۔
ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز پبلک ریلیشنز لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور "سیاسی-مجرمانہ گٹھ جوڑ” کو توڑنے کے لیے پاکستان کی مسلح افواج کے تجدید شدہ عزم کی توثیق کی ہے، جسے وہ صوبے میں عسکریت پسند واقعات میں اضافے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
جمعہ کے روز پشاور کور ہیڈ کوارٹرز میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل چوہدری نے کہا کہ 2014 میں اے پی ایس سانحے کے بعد تمام سیاسی رہنماؤں نے نیشنل ایکشن پلان کے ذریعے ایک متفقہ لائحہ عمل اپنانے پر اتفاق کیا تھا، لیکن "بعد کی حکومتیں تسلسل کو یقینی بنانے میں ناکام رہیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ موجودہ حکومت نے نظرثانی شدہ منصوبے کا نام تبدیل کر کے "عزم استحکام” رکھ دیا ہے، لیکن "اس کے 14 نکات پر عمل درآمد اب بھی نامکمل ہے۔”
انہوں نے "دہشت گردی کو اس کی تمام شکلوں اور مظاہر میں” جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے مسلح افواج کے عزم کا اعادہ کیا، اور ڈیوٹی کے دوران اپنی جانیں قربان کرنے والے سیکیورٹی اہلکاروں اور عام شہریوں کو خراج تحسین پیش کیا۔
بعد میں، آئی ایس پی آر کے سربراہ نے کہا کہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو ایک "سوچے سمجھے منصوبے” کے تحت خیبر پختونخوا میں جگہ دی گئی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ گورننس اور عوامی فلاح و بہبود کو جان بوجھ کر متاثر کیا گیا۔