بلوچستان کی تحصیل زہری میں امن کی واپسی، آپریشن کامیاب کیسے ہوا ؟

| شائع شدہ |12:28

سب ڈویژن تحصیل زہری ضلع خضدار کا حصہ ھونے کیساتھ ساتھ این 25 شاہراہ سے پچاس کلومیٹر جبکہ  خضدار شہر سے ڈیڑھ سو کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔  ہر سمت سے پہاڑوں کے دامن میں  واقعہ یہ ایک قبائلی علاقہ ہے جہاں زہری قبائل رہائش پذیر ہیں۔ جو مختلف براہوئی ٹرائبز کا مشترکہ قبیلہ کہلاتا ہے۔ سب ڈویژن زہری کا مرکزی شہر ایم سی نورگامہ ہے۔

 بھپو، گزان، تراسانی، بلبل، ایم سی زہری نورگامہ، مشک سرآپ، دوگن، چشمہ، دیزیری، مورینکی زرد، کلی کمال خان مشک تحصیل زہری کے علاقے اور یونین کونسلز ہیں۔

 سرکاری دفاتر میں بینک، نادرا آفس، لیویز آفس، سرکاری ریسٹ ہاؤس اور میونسپل کمیٹی آفس شامل ہیں۔ تحصیل زہری صوبائی اسمبلی کا حصہ ہے اور کرخ مولہ کو ملا کر بلوچستان اسمبلی کی ایک سیٹ بنتی ہے۔ یہاں سے متواتر سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اور چیف آف جھالاوان نواب ثناء اللہ زہری کامیاب ہوتے رہے ہیں، اور اب بھی ان کا اثر و رسوخ برقرار ہے۔ زہری میں ایک اسسٹنٹ کمشنر بیٹھتا ہے جب کہ اس سٹی کو میونسپل کمیٹی کی حیثیت حاصل ہے اور اس کا چیئرمین میر فیصل زہری ہے جن کا تعلق پیپلزپارٹی سے ہے ۔

گزشتہ چند سالوں سے تحصیل زہری میں امن و امان کی صورتحال بہتر نہ تھی، لیکن 2025 کی ابتدا سے یہ مزید بگڑ گئی اور ملکی و بین الاقوامی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ جنوری 2025 میں کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ کے مسلح دہشت گردوں نے ایم سی نورگامہ پر حملہ کرکے بینک کو لوٹ کر آگ لگا دی، نادرا آفس کو جلا دیا، لیویز تھانے پر قبضہ کرکے توڑ پھوڑ کی، اسلحہ اور گاڑیاں لوٹ لیں اور عام شہریوں کی گاڑیاں بھی ساتھ لے گئیں۔ لیویز اہلکاروں سمیت متعدد عام شہریوں کا قتل عام کیا۔ اس  طرح امن و امان کی صورتحال مزید مخدوش ہو گئی۔ بیشتر لوگوں نے زہری سے اپنے خاندانوں سمیت نقل مکانی کی ۔ 11 اگست 2025 کو بی ایل اے نے کثیر تعداد میں یلغار کرکے نورگامہ اور این 25 شاہراہ کو جوڑنے والے روڈ پر قبضہ کر لیا۔ تاہم صوبائی حکومت نے اس کی تردید کی۔

اس سنگین صورتحال کو پاک آرمی اور سیکورٹی فورسز نے چیلنج سمجھا اور زہری کے عوام کو دہشت گردوں کے یرغمال سے نجات دلانے کا فیصلہ کیا۔ 30 ستمبر 2025 سے منظم آپریشن کا آغاز ہوا۔ جس کا مقصد این 25 شاہراہ تک روڈ کو کلیئر کرنا اور تمام علاقوں کو محفوظ بنانا تھا۔ تین دن کی انتہائی محنت کے بعد پورا علاقہ کلیئر کر دیا گیا۔ آپریشن میں 20 سے زائد دہشت گرد مارے گئے اور اتنے ہی زخمی ہوگئے۔ جبکہ باقی پہاڑوں کی طرف فرار ہو گئے۔سیکورٹی فورسز کے زمینی دستوں نے ہیلی کاپٹروں کی مدد سے آپریشن کیا اور یہ کلیئرنس آپریشن چھ روز سے زائد عرصے سے جاری ہے تاکہ فراری دہشت گردوں کا پیچھا کیا جائے اور دہشت گردی کا مکمل خاتمہ یقینی بنایا جائے۔ یہ آپریشن بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف ایک اہم کامیابی ہے۔ جو علاقائی استحکام کو مضبوط کرے گا۔

آپریشن کے بعد مقامی شہریوں نے پاک آرمی اور سیکورٹی فورسز کی کامیابی کا خیرمقدم کیا اور ان کی تعریف کی۔ ان کا کہنا ہے کہ امن قیام کی یہ کوشش خوش آئند ہے اور فورسز نے عوام کی جان و مال کی حفاظت کی۔

 قبائلی شخصیت میر خیر جان زہری نے کہا کہ تحصیل زہری ایک پرامن علاقہ تھا جہاں زراعت، گلہ بانی اور تجارت سے لوگوں کی روزی روٹی چلتی تھی۔ لیکن مسلح عناصر نے امن خراب کیا۔ بینک اور نادرا جلائے گئے۔ نقل و حرکت متاثر ہوئی اور لوگ خوفزدہ ہو گئے۔ اب فورسز کی آمد سے امن لوٹ رہا ہے۔ ہم صرف امن چاہتے ہیں۔ تاکہ دفاتر، اسکولز اور ہسپتال کھل جائیں۔

سیاسی و سماجی رہنما میر الیاس زہری نے کہا کہ امن ہماری پہلی ترجیح ہے، پاک آرمی کی کارروائی کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ لیکن روڈ بندش اور دکانوں کی بندش سے غذائی قلت پیدا ہوئی ہے۔ دکانوں کو فوری کھولنا چاہیے۔ نوزائد بچوں کے لیے دودھ دستیاب ہو اور انٹرنیٹ ، پی ٹی سی ایل ڈی ایس ایل بحال کیا جائے جو ہفتوں سے بند ہے۔ تاکہ آن لائن تعلیم، داخلے اور ملازمتوں کی درخواستیں ممکن ہوسکے۔

ایک اور زہری قبائلی رہنما حمزہ لاشاری نے کہا کہ زہری میں بی ایل اے اور بی وائی سی کی افواہیں بے بنیاد ثابت ہوئیں۔ فورسز اور عوام نے مل کر دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کیئے اور اب علاقہ پرامن ہے۔ پاک آرمی کی قربانیاں قابلِ تحسین ہیں جو بلوچستان کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لیئے جاری جدوجہد میں عوام کی امید ہیں۔

سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری نے پاک آرمی اور سیکورٹی فورسز کے کامیاب آپریشن پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ فورسز نے علاقے کو دہشت گردوں سے صاف کرکے اپنا قومی فریضہ پورا کیا ہے۔ محب وطن شہری جو دہشت گردوں کی وجہ سے تکلیف میں تھے۔ اب امن اور سکون کی زندگی گزار سکتے ہیں۔ یہ آپریشن بلوچستان کے استحکام کے لیے ایک اہم قدم ہے اور ہم فورسز کی اس کوشش کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔

جھالاوان عوامی پینل کے سربراہ میر شفیق الرحمان مینگل نے بھی الگ بیان میں آپریشن کی تعریف کی اور کہا کہ 11 اگست سے 30 ستمبر تک تمام بلوچ لوگوں نے فتنہ الہندوستان بی ایل اے لیڈروں کی حقیقی شکل دیکھی ہے۔  جس نے بلوچ گھروں پر حملے کیئے، بلوچ خواتین کی عصمت ریزی کی اور بلوچ بچوں اور مردوں کو یرغمال بنایا۔ سیکورٹی فورسز کی اس کارروائی سے علاقے میں امن بحال ہو رہا ہے اور ہم اس کی حمایت کرتے ہیں تاکہ بلوچ عوام پرامن زندگی گزار سکیں۔

مقامی انتظامیہ کے ذمہ دار آفیسر نے بتایا کہ کلیئرنس کے بعد معمولات زندگی بحال ہو رہے ہیں۔ فورسز شہریوں کی حفاظت کر رہی ہیں۔ مسعود احمد بگٹی کو اسسٹنٹ کمشنر تعینات کیا گیا ہے اور سیکورٹی فورسز کا ایک پلاٹون علاقے میں تعینات رہے گا تاکہ امن برقرار رہے اور عوام سکون سے کاروبار کر سکیں۔ مزید یہ کہ آپریشن کے دوران ضروری خدمات کو برقرار رکھا گیا ہے، اسکولز، ہسپتال اور مارکیٹیں کھلی ہیں۔ اور انتظامیہ عوام کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیئے کوشاں ہے۔ ضلعی سطح پر کوآرڈینیشن بڑھا دی گئی ہے تاکہ کسی بھی ممکنہ مسئلے کو فوری حل کیا جا سکے اور علاقے میں مکمل استحکام یقینی بنایا جائے۔ زہری سے باقی اضلاع کا رابطہ منقطع ہے۔ اسے اگلے ایک دو روز میں بحال کر دیا جائے گا۔ جبکہ شہر زہری میں وقتی طور پر کرفیو برقرار رہے گا تاکہ مکمل امن و امان کے حوالے سے اطمینان کیا جا سکے۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں