شدت پسندی کا خونی ورثہ مسترد: سابق کمانڈر کا اعتراف اور مکالمے کی پکار

بلوچستان میں دہائیوں سے جاری شورش نے ایک ایسا بیانیہ پروان چڑھایا جو محرومیوں اور انتقام کے گرد گھومتا رہا ہے۔ دہشت گرد گروہوں نے خاندانی وابستگیوں، ثقافتی علامات اور طالب علم تنظیموں کو استعمال کر کے نوجوانوں کو بھرتی کیا، جبکہ غربت، لاپتہ افراد اور پسماندگی جیسے حقیقی مسائل کو حل کرنے کے بجائے بار بار بطور ہتھیار استعمال کیا تاکہ شدت پسندی کو زندہ رکھا جا سکے۔ یہ بیانیہ غصہ اور بداعتمادی تو بڑھاتا رہا، لیکن کسی بھی پائیدار حل کی طرف نہیں لے جا سکا۔

اس پرانے خونی بیانیے کی بنیادیں حالیہ دنوں میں اس وقت ہل گئیں جب بلوچ نیشنل آرمی کے سابق کمانڈر گلزار امام شمبے نے اے آر وائی ٹی وی کو ایک انٹرویو دیا۔ شمبے نے کھل کر اعتراف کیا کہ مسلح سرگرمیوں سے بلوچ عوام کو خونریزی، بے گھری اور مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔

انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کر دیا کہ آگے بڑھنے کا واحد راستہ ریاست کے ساتھ مکالمہ ہے، نہ کہ غیر ملکی ایجنڈا، بندوق یا مزاحمت کے نام پر معصوم شہریوں کو سڑکوں پر دھکیلنا۔ یہ اعتراف اس بیانیے کی مکمل ناکامی کا ثبوت ہے جس پر یہ تنظیمیں طویل عرصے سے انحصار کرتی آئی ہیں۔

شمبے نے اپنے انٹرویو میں ماہرنگ بلوچ کے والد میر غفّار لانگو کا بھی تذکرہ کیا جو سردار خیر بخش مری کے قریبی ساتھی تھے۔ غفّار لانگو بلوچ لبریشن آرمی کے قلات کا کمانڈر تھا جس نے قلات، مستونگ اور تربت میں مسلح کارروائیوں سے خوف اور انتشار پھیلایا۔ ان سرگرمیوں کا سب سے بڑا نقصان عام بلوچ عوام کو پہنچا جنہیں جانی و مالی تباہی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

یہ خونی ورثہ آج ماہرنگ بلوچ کے بیانیے میں جھلکتا ہے۔ "لاپتہ افراد” کے نام پر جلسے جلوس اور دھرنے دراصل اسی پرانے پروپیگنڈے کی نئی شکل ہیں جو انسانی ہمدردی یا سیاسی جدوجہد کے بجائے خاندانی وابستگی اور دہشت گرد ایجنڈے کا تسلسل معلوم ہوتا ہے جسے وقتاً فوقتاً نئے چہروں کے ذریعے زندہ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دہشت گرد تنظیمیں اسی پس منظر رکھنے والے لوگوں کو "سیاسی چہروں” کے طور پر استعمال کرتی ہیں تاکہ انتشار کو قائم رکھا جا سکے۔

بلوچستان اس وقت ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے۔ فرق بالکل واضح ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں پرانے بیانیوں کو دہرا کر نئی نسل کو گمراہ کر رہی ہیں، چاہے وہ پہاڑوں میں مسلح کارروائیوں کی صورت میں ہوں یا شہروں میں احتجاجی دھرنوں کی صورت میں۔گلزار شمبے جیسے  لوگ جو خود مسلح کارروائیوں کا حصہ رہے، اب اس کی ناکامی کو تسلیم کر چکے ہیں۔

جب شدت پسندی کے معمار بھی مان گئے ہیں کہ حل صرف مکالمے اور امن میں ہے تو بلوچ عوام کو علیحدگی پسند ورثے کی پرانی چالوں سے آزاد ہونا ہوگا۔ روزگار، تعلیم، صحت اور لاپتہ افراد جیسے حقیقی مسائل صرف جمہوری اور سیاسی ذرائع سے حل کیے جا سکتے ہیں نہ کہ خونریزی کی شکل میں۔

شدت پسندی کے بیانیے عوام کے زخم بھرنے کے بجائے انہیں مزید گہرا کرتے ہیں۔ مستقبل کا راستہ بغاوت میں نہیں بلکہ مفاہمت میں ہے۔ میر ہزار خان مری جیسے رہنماؤں نے بھی یہ حقیقت سمجھی جو مسلح کارروائیوں میں پیش پیش تھے لیکن آخر کار اس نتیجے پر پہنچے کہ ریاست کے خلاف بندوق نہیں بلکہ مفاہمت اور سیاست ہی اصل حل ہے۔

معروف صحافی عمار مسعود نے بھی اپنی کتاب "مزاحمت سے مفاہمت تک” میں یہی نکتہ بیان کیا ہے کہ بلوچ قیادت کے سنجیدہ لوگ سمجھ چکے ہیں کہ پائیدار راستہ صرف سیاست، امن اور ریاست کے ساتھ شمولیت ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ بلوچ عوام بھی اس خونی ورثے کو مسترد کر کے امن اور ترقی کا راستہ اپنائیں۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں