نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے جمعہ کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے غزہ امن مسودے سے متعلق اہم انکشافات کیے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ غزہ کے لیے تیار کردہ 20 نکاتی ڈرافٹ میں ان کے کہنے پر اسرائیل کا نام خارج کیا گیا اور اس مسودے کو رات گئے ایک بجے حتمی شکل دی گئی۔
نائب وزیراعظم ڈار نے واضح کیا کہ فلسطین کا معاملہ سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے اور اس پر قوم متفق ہے۔ انہوں نے تصدیق کی کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کے معاملے پر اہم نکات پیش کیے تھے۔
انہوں نے کہا کہ جب انہیں 20 نکاتی ایجنڈا دیا گیا، تو اسلامی ممالک کی جانب سے انہوں نے ایک ترمیم شدہ 20 نکاتی پلان پیش کیا۔ ڈار کا کہنا تھا کہ ‘جو 20 نکاتی ڈرافٹ فائنل ہوا، اس میں تبدیلیاں کی گئیں، اور ان تبدیلیوں کو ہم قبول نہیں کرتے۔’
انہوں نے مزید بتایا کہ آٹھ ممالک کے وزرائے خارجہ اور صدر ٹرمپ کی ٹیم کے درمیان ملاقات ہوئی، جہاں امریکی صدر نے کھل کر بات کی اور اس بات پر اتفاق ہوا کہ مشترکہ بیان میں مغربی کنارہ غزہ کا حصہ کہلائے گا۔ اسحاق ڈار نے زور دیا کہ یہ مسئلہ کسی ایک ملک کا نہیں، بلکہ تمام اسلامی ممالک کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ ان آٹھ ممالک کے وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں ان کے اکثر نکات مان لیے گئے۔
ڈار نے کہا کہ مشترکہ بیان میں غزہ میں امن کے لیے صدر ٹرمپ کی کوششوں کا خیر مقدم کیا گیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ فلسطین پر پاکستان کی پالیسی وہی ہے جو بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی تھی۔
نائب وزیر اعظم نے عالمی اداروں کی غزہ میں خونریزی بند کرانے میں ناکامی پر افسوس کا اظہار کیا، جن میں اقوام متحدہ اور یورپی یونین بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنگ زدہ علاقے میں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔ ڈار نے یاد دلایا کہ وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسرائیل کا نام لے کر سخت مذمت کی تھی۔
اسحاق ڈار نے چین کو پاکستان کا "سدا بہار دوست” قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہماری آزاد خارجہ پالیسی میں چین کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔
انہوں نے قومی اسمبلی میں بتایا کہ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کئی دہائیوں پر محیط ہیں اور دفاعی معاہدہ اچانک نہیں ہوا بلکہ اس پر طویل عرصے سے کام ہو رہا تھا۔
نائب وزیر اعظم نے گلوبل صمود فلوٹیلا پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کی جہاں اسرائیل نے فلوٹیلا کی 22 کشتیاں قبضے میں لے کر لوگوں کو گرفتار کیا جن میں کچھ پاکستانی بھی شامل ہیں۔ انہوں نے تصدیق کی کہ سابق سینیٹر مشتاق احمد خان بھی تحویل میں لیے جانے والوں میں شامل ہیں اور ان کی رہائی کے لیے ایک بااثر یورپی ملک سے بات کی گئی ہے۔ انہوں نے مزید پاکستانیوں کی بحفاظت واپسی کے لیے بھی کوششیں جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔