تحریر: ڈاکٹر احمد خان
اگست 2021 میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلاء خطے کی تاریخ کا ایک بڑا تاریخی واقعہ تھا۔ تاہم، افسوس کی بات یہ ہے کہ اس نے نہ صرف افغانستان بلکہ پڑوسی ملک پاکستان میں بھی عدم استحکام کے ایک سلسلے کو جنم دیا ہے۔ امریکی ساختہ فوجی ساز و سامان کی مسلسل فراہمی اس انخلاء کا سب سے زیادہ پریشان کن نتیجہ ہے، جو فی الحال پاکستان میں دہشت گردی اور عدم استحکام میں اضافہ کر رہا ہے۔ امریکی فوجی دستوں کے چھوڑے گئے ایم 16 اور ایم 4 رائفلیں، نائٹ ویژن اور دیگر انتہائی تکنیکی فوجی آلات دہشت گرد گروہوں کے غلط ہاتھوں میں چلے گئے ہیں، جس سے خطے میں پہلے سے ہی غیر مستحکم سیکیورٹی کی صورتحال مزید بگڑ گئی ہے۔
افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد طالبان کا اقتدار پر قبضہ کرنے سے مقامی کمانڈروں اور جنگجو سرداروں کو امریکی فراہم کردہ ہتھیاروں کی ایک وسیع سپلائی جاری رکھنے کا موقع ملا ہے۔ اس صورتحال نے فوجی ساز و سامان کے لحاظ سے ایک بلیک مارکیٹ کی خوشحالی کو جنم دیا ہے، جس کا زیادہ تر حصہ تحریک طالبان پاکستان جیسے دہشت گرد گروہوں کے ہاتھ لگ رہا ہے۔ یہ دہشت گرد گروہ، جو پہلے جدید اسلحے تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے محدود تھے، اب جدید نفیس ہتھیاروں اور آلات کی آمد سے خود کو بااختیار محسوس کر رہے ہیں، جس نے پاکستان میں تشدد کی شدت میں اضافہ کیا ہے۔
اس مسئلے کی سنگینی خطہ کے لیے تکلیف دہ ہے۔امریکہ کے انخلاء کے وقت تقریباً 7 بلین مالیت کا فوجی ساز و سامان پیچھے چھوڑا گیا۔ اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ ہتھیاروں کو واپس حاصل کر لیں گے، لیکن انہیں واپس حاصل کرنے کے لیے کوئی مؤثر حل سامنے نہیں آیا ہے۔ بلکہ، وہ افغانستان میں ہی رہے ہیں اور طالبان اور دیگر دہشت گردوں کے ذریعے نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان میں بھی انارکی پھیلانے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ جو ہتھیار اس وقت بلیک مارکیٹ میں موجود ہیں، اس سے عسکریت پسندوں کے حملوں کو اس درستگی کے ساتھ کرنے کی صلاحیت کو آسان بنا دیا ہے کہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے لیے ان سے نمٹنا مزید مشکل ہو گیا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹس نے بھی اس تشویشناک حقیقت کی تصدیق کی ہے کہ عسکریت پسند گروہ، بشمول کالعدم تحریک طالبان پاکستان ، افغانستان میں چھوڑے گئے امریکی ساختہ ہتھیاروں تک رسائی حاصل کر چکے ہیں۔ ان رپورٹس کے مطابق، یہ ہتھیار خاص طور پر ایم 16 رائفل اور نائٹ ویژن آلات نے ان عسکریت پرست گروہوں کی آپریشنل صلاحیت کو بہت زیادہ بڑھا دیا ہے، جس سے وہ اب پاکستانی سیکیورٹی فورسز اور عام شہریوں پر زیادہ مہلک حملے کر سکتے ہیں۔ ان ہتھیاروں کا دائرہ جتنا بڑھ رہا ہے، تشدد کا دائرہ اور سطح بھی اتنی ہی زیادہ ہو رہی ہے اور اب پاکستان کا استحکام داؤ پر لگا ہوا ہے۔
خطے میں امریکی فوجی ساز و سامان کی بڑھتی ہوئی دستیابی نے پاکستان میں سیکیورٹی کی صورتحال کو مزید بگاڑنے میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ ان ہتھیاروں کی بلیک ٹریڈ میں اضافہ ہو رہا ہے اور نہ صرف دہشت گرد، بلکہ عام شہری بھی جب غیر محفوظ سیکیورٹی صورتحال کی وجہ سے جدید اسلحہ چاہتے ہیں تو یہ حاصل کر رہے ہیں۔ جب ایسے مہلک آلات آسانی سے حاصل کیے جا سکتے ہیں، تو طویل مدت میں خطے کے مستحکم رہنے کے بارے میں سنگین سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ یہ منظر نامہ اس وقت تک مہلک ہوتا چلا جائے گا جب تک اس پر کوئی روک نہیں لگائی جاتی، کیونکہ یہ پاکستان کے متزلزل سیکیورٹی فریم ورک میں اضافہ کرے گا۔
واضح رہے کہ امریکہ کے چھوڑے گئے ہتھیاروں کے خطرات کی رپورٹس کوئی نئی بات نہیں ہیں، اور ان کے خدشات بے بنیاد نہیں رہے ہیں۔ اگرچہ طالبان اسے تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں، لیکن یہ حقیقت غیر متنازعہ ہے: وہ ہتھیار جو افغان فوجیوں کے ہاتھوں میں جانے کے لیے تھے، وہ پہلے ہی پرتشدد انتہا پسندوں کے قبضے میں آ چکے ہیں جو خطے میں دہشت اور تباہی پھیلا رہے ہیں۔ ان ہتھیاروں کی بڑھتی ہوئی دستیابی پاکستانی حکام کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی کے لیے بھی سب سے بڑے خطرات میں سے ایک بن کر ابھری ہے، جو مسلسل عسکریت پسندوں کے حملوں کی زد میں ہیں۔
مئی 2025 میں، پاکستانی عہدیداروں نے ملک میں کام کرنے والے عسکریت پسند گروہوں کے امریکی فراہم کردہ ہتھیاروں کو پکڑا، جن کی بعد میں تصدیق ہوئی کہ وہ امریکہ کی جانب سے افغان افواج کو فراہم کیے گئے تھے۔ یہ دریافت ان ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور پاکستانی شہریوں اور سیکیورٹی اہلکاروں کے خلاف حملوں میں ان کے ممکنہ استعمال کی وجہ سے تشویش کا باعث تھی۔ رائفلوں کے علاوہ، نائٹ ویژن کے اعلیٰ درجے کے آلات بھی تھے جو بلیک مارکیٹ میں بہت کم قیمت پر فروخت ہو رہے تھے، جس نے ایک بار پھر اس جدید فوجی ساز و سامان کی زیادہ سپلائی کی گواہی دی۔ پاکستانی اسلحہ تاجر راز محمد نے انکشاف کیا کہ نائٹ ویژن کا سامان، جس کی قیمت 2000 ڈالر تھی، طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد 300 ڈالر سے کم میں فروخت ہو رہا تھا، جس کی وجہ سے بلیک مارکیٹ میں زبردست توسیع ہوئی۔
11 مارچ 2025 کو بلوچ عسکریت پسندوں کی طرف سے ہونے والا ٹرین پر حملہ حالیہ مہینوں کے سب سے پریشان کن واقعات میں سے ایک تھا۔ پاکستان کے حکام نے حملے میں استعمال ہونے والی تین امریکی رائفلوں کا سراغ لگایا، جن میں سے دو کی انہوں نے تصدیق کی کہ وہ افغان افواج کو فراہم کی گئی تھیں۔ اس حملے میں کئی لوگوں جاں بحق اور بہت سے زخمی ہوئے۔ اس واقعہ سے یہ حقیقت ایک دفعہ پھر واضح ہوئی کہ کس طرح امریکی ہتھیاروں کو سرحد پار بغاوتوں میں استعمال کیا جا رہا ہے، جس کا پاکستان کی سیکیورٹی پر براہ راست اثر پڑ رہا ہے۔ طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے سے نہ صرف ملک کے اندر عدم استحکام میں اضافہ ہوا ہے، بلکہ اس نے ایک اچھا پلیٹ فارم بھی فراہم کیا ہے جہاں ہتھیار پھیلتے جا رہے ہیں، جو خطے میں امن کے لیے ایک مسلسل خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
حالات تشویشناک ہیں اور بین الاقوامی برادری کو دہشتگردوں اور مجرموں تک ہتھیاروں کی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے فوری اور بنیادی اقدامات کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ اگرچہ چھوڑے گئے ہتھیاروں کے حوالے سے امریکہ جزوی طور پر ذمہ دار ہے، لیکن بین الاقوامی برادری کو ایسے ہتھیاروں کے مزید پھیلاؤ کو روکنے کے لیے باہمی تعاون کی ضرورت ہے۔ خطے کا باہمی تعاون عسکریت پسند گروہوں کی موجودگی کے خلاف جنگ میں اہم ہے جو بلیک مارکیٹ کا استعمال کرتے ہوئے انسانیت کے خلاف اپنے پرتشدد اقدامات کو آگے بڑھانے کے لیے فوجی ساز و سامان حاصل کرتے ہیں۔
پاکستان کو بھی اپنی طرف سے ایسے خطرات پر قابو پانے کے لیے اپنے اقدامات کو مزید مضبوط کرنے اور خطے میں ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے عمل میں مداخلت کے لیے بین الاقوامی برادری کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی اور عدم استحکام کے خلاف جنگ ایک مشترکہ ذمہ داری ہے کہ دنیا کو امریکی فوجی انخلاء اور چھوڑے گئے ہتھیاروں کے سنگین مضمرات کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔
آخر میں یہ کہ افغانستان سے امریکی انخلاء نے غیر ارادی طور پر پاکستان میں دہشت گردی اور عدم استحکام میں بھی حصہ ڈالا ہے۔ چھوڑے گئے ہتھیاروں نے عسکریت پسندی کو ہوا دی ہے، بلیک مارکیٹ کو فروغ دیا ہے، اور خطے میں سیکیورٹی کی صورتحال کو مزید غیر مستحکم بنا دیا ہے۔ پاکستان جس بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی لہر کا مقابلہ کر رہا ہے، اس کے پیش نظر بین الاقوامی برادری کو صورتحال کی سنجیدگی کا احساس کرنے اور اس کے مزید بڑھنے سے بچنے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔