تحریر : ریاض حسین
خیبر پختونخوا کے محکمہ وائلڈ لائف نے 2026 کے ٹرافی ہنٹنگ پروگرام سے 1.9 ملین امریکی ڈالر (542.7 ملین پاکستانی روپے) سے زیادہ کی آمدن حاصل کی ہے۔ یہ پاکستان میں کمیونٹی کی بنیاد پر جنگلی حیات کے تحفظ کی کوششوں میں ایک اور سنگ میل ہے۔
حکام کے مطابق یہ آمدنی چار برآمدی مارخور پرمٹس کی فروخت سے حاصل ہوئی، جن کی مالیت 946,000 ڈالر تھی، جبکہ نو غیر برآمدی مارخور پرمٹس سے 553,300 ڈالر، 20 آئیبیکس (ibex) پرمٹس سے 16,042 ڈالر، اور چھ گرے گورل (grey goral) پرمٹس سے 398,500 ڈالر کمائے گئے۔ اس پروگرام کے تحت، حاصل ہونے والی آمدنی کا 80 فیصد مقامی کمیونٹیز کو دیا جاتا ہے جبکہ باقی 20 فیصد صوبائی خزانے میں جاتا ہے، جس سے اسکولوں، صحت کی خدمات، آبپاشی، کھیلوں اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کو فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں۔
اس اقدام کے نتیجے میں پاکستان کے قومی جانور مارخور کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ خیبر پختونخوا میں مارخور کی تعداد چند دہائیوں پہلے کے صرف 400 سے بڑھ کر اب 6,000 سے تجاوز کر گئی ہے۔ 2024-25 کے سروے کے مطابق، صوبے میں 5,621 مارخور موجود ہیں جبکہ 1985 میں ان کی تعداد صرف 961 تھی۔ چترال اب بھی مارخور کا سب سے بڑا گڑھ ہے، جہاں تقریباً 3,400 جانور ہیں، جن میں سے 1,556 چترال نیشنل پارک میں اور 1,349 توشی-شاشا کنزروینسی میں ہیں۔ اس کے علاوہ، کوہستان، سوات اور دیر بالا کے کچھ حصوں میں بھی ان کی چھوٹی لیکن بڑھتی ہوئی آبادی ریکارڈ کی گئی ہے۔
چیف کنزرویٹر وائلڈ لائف خیبر پختونخوا محسن فاروق نے بتایا کہ ماضی میں بے قابو شکار نے اس نسل کو معدومی کے دہانے پر دھکیل دیا تھا لیکن ٹرافی ہنٹنگ کے ضابطے اور کمیونٹی کے ساتھ شراکت داری نے اس کمی کو روکا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ "ہم نے صرف دو دنوں میں مارخور کے پرمٹس یعنی اجازت نامہ سے 54 کروڑ روپے سے زیادہ کمائے”، اور مقامی باشندوں کی تعریف کی کہ انہوں نے شکار کی آمدنی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نسل کو غیر قانونی شکار سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔
خیبر پختونخوا کے علاوہ گلگت بلتستان نے بھی ٹرافی ہنٹنگ سے ریکارڈ آمدنی کی اطلاع دی ہے۔ 2025-26 کی نیلامی میں چار آسٹور مارخور (Astore markhor) پرمٹس پر ریکارڈ بولی لگی جس میں سے ایک نانگا پربت کنزروینسی میں 370,000 ڈالر میں فروخت ہوا۔ دیگر پرمٹس 240,000 سے 286,000 ڈالر کے درمیان فروخت ہوئے۔ خیبر پختونخوا کی طرح، گلگت بلتستان میں بھی 80 فیصد آمدنی مقامی کمیونٹیز کو واپس کی گئی۔
چترال اور دیگر کنزروینسیز میں ویلیج کنزرویشن کمیٹیز اب نگرانی، غیر قانونی شکار کی روک تھام اور آمدنی کی تقسیم کی ذمہ دار ہیں، اور وہ باہر کے شکاریوں پر بھی کڑی نظر رکھتی ہیں۔
بین الاقوامی سطح پر اس اقدام کی تعریف کے باوجود، ماہرین نے ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے خطرات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ماحولیاتی صحافی داؤد خان نے خبردار کیا ہے کہ گلیشیئرز کا پگھلنا، کلاؤڈ برسٹ اور رواں سال گلگت بلتستان میں 47°C تک پہنچنے والے ریکارڈ درجہ حرارت سے مارخور کے قدرتی مسکن کو نقصان پہنچ رہا ہے، خوراک کے ذرائع کم ہو رہے ہیں اور وہ ‘ٹِکس’ (ticks) کے حملوں اور دیگر بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔
محافظین ماحولیات نے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ پرمٹس کی بڑھتی ہوئی بنیادی قیمتیں (حال ہی میں گلگت بلتستان میں $150,000 سے $200,000 تک بڑھائی گئیں) شکاریوں کو دور کر سکتی ہیں اور پروگرام کے مقصد کو تحفظ سے منافع کی طرف منتقل کر سکتی ہیں۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ صرف بوڑھے نر جانوروں کا شکار کیا جانا چاہیے اور طویل مدتی پائیداری کو یقینی بنانے کے لیے شفاف طریقے سے آمدنی کی تقسیم اور سخت نفاذ کی ضرورت ہے۔
پاکستان کا ٹرافی ہنٹنگ کا اقدام اب کمیونٹیز کو تحفظ سے جوڑنے کا ایک عالمی ماڈل سمجھا جاتا ہے، جس سے لاکھوں ڈالر کی آمدنی حاصل ہو رہی ہے اور مارخور کی آبادی میں زبردست اضافہ ہو رہا ہے۔ تاہم، ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی تیزی کے پیش نظر، اقتصادی فوائد اور ماحولیاتی پائیداری کے درمیان توازن برقرار رکھنا ملک کے اس شاندار پہاڑی جانور کو بچانے کے لیے انتہائی اہم ہوگا۔