ملک بھر میں سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے، جس سے انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا ہے اور کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق، ایم-5 موٹروے پر اب تک 13 مقامات سیلاب سے متاثر ہو چکے ہیں اور حکام نے خبردار کیا ہے کہ صورتحال بگڑنے پر مزید چار سے پانچ مقامات متاثر ہو سکتے ہیں۔
موٹروے پولیس کے مطابق، سیلاب کی وجہ سے موٹروے مکمل طور پر بند ہے۔ ملتان سے سکھر جانے والے مسافروں کو متبادل راستے استعمال کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ ٹریفک کو شاہ شمس انٹرچینج سے نیشنل ہائی وے کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ اوچ شریف انٹرچینج سے گاڑیاں دوبارہ ایم-5 پر آ سکتی ہیں، جبکہ سکھر سے ملتان جانے والے مسافر اوچ شریف انٹرچینج کے ذریعے نیشنل ہائی وے استعمال کر سکتے ہیں۔ پولیس نے یہ بھی بتایا کہ شیر شاہ انٹرچینج بھی موٹروے پر دوبارہ داخل ہونے کے لیے کھلا ہے۔ افسران ڈرائیوروں کی رہنمائی اور محفوظ راستے کو یقینی بنانے کے لیے موقع پر موجود ہیں۔
پنجاب میں سیلاب سے 0.6 ملین ایکڑ چاول کی فصل تباہ ہو چکی ہے۔ اسی طرح سندھ کے دریاؤں کے آس پاس کے علاقوں میں بھی زیادہ سیلابی بہاؤ نے فصلوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ محکمہ موسمیات (پی ایم ڈی) نے سندھ کے بیراجوں میں پانی کی سطح میں کمی کی اطلاع دی ہے، تاہم نوابشاہ میں دریائے سندھ میں پانی کا بہاؤ بڑھ گیا ہے۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے اتوار کو بتایا کہ 26 جون سے اب تک تقریباً 5,800 آپریشنز میں 3.02 ملین سے زائد افراد کو بچایا گیا ہے۔2 این ڈی ایم اے، صوبائی حکام، پاکستان آرمی اور دیگر ایجنسیوں کی مربوط کوششوں سے کیے گئے 5,768 ریسکیو آپریشنز میں کُل 3,020,130 افراد کو نکالا گیا۔3 پنجاب میں سب سے زیادہ 2.81 ملین افراد کو 4,749 آپریشنز میں بچایا گیا، اس کے بعد سندھ میں 753 آپریشنز میں 184,011 افراد کو نکالا گیا۔4
این ڈی ایم اے نے کہا کہ موسلا دھار بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے کم از کم 1,006 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جن میں 275 بچے، 568 مرد اور 163 خواتین شامل ہیں۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں خیبر پختونخوا میں ریکارڈ کی گئیں جہاں 504 افراد جاں بحق ہوئے، جبکہ پنجاب میں 304، سندھ میں 80، بلوچستان میں 30، گلگت بلتستان میں 41، آزاد جموں و کشمیر میں 38 اور اسلام آباد میں نو ہلاکتیں ہوئیں۔6 ملک بھر میں مزید 1,063 افراد زخمی بھی ہوئے، جن میں 321 بچے، 450 مرد اور 292 خواتین شامل ہیں۔ پنجاب میں پھر سب سے زیادہ 661 افراد زخمی ہوئے، اس کے بعد خیبر پختونخوا میں 218 اور سندھ میں 87 افراد متاثر ہوئے۔
این ڈی ایم اے نے بتایا کہ اب تک 273,524 امدادی اشیاء تقسیم کی جا چکی ہیں، جن میں خیمے، کمبل، راشن بیگ، خوراک کے پیکٹ، حفظان صحت کی کٹس اور صاف پینے کا پانی شامل ہے۔9 مزید برآں، سولر پینل، ڈی-واٹرنگ پمپس اور جنریٹر جیسی اضافی اشیاء بھی فراہم کی گئی ہیں۔
26 جون سے اب تک، سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 1,690 ریلیف اور میڈیکل کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔10 ان میں سے، 741 میڈیکل کیمپوں میں 662,098 مریضوں کا علاج کیا گیا، جبکہ 949 ریلیف کیمپوں نے 152,252 افراد کو پناہ اور خدمات فراہم کیں۔
سیلاب نے 12,569 گھروں کو تباہ یا نقصان پہنچایا ہے، 6,509 مویشی ہلاک ہوئے ہیں اور کمیونٹیز کو بے گھری اور ضروری وسائل کی قلت کا سامنا ہے۔ انفراسٹرکچر کے نقصانات میں 239 پُل اور تقریباً 2,000 کلومیٹر سڑکیں شامل ہیں۔ سب سے زیادہ نقصان خیبر پختونخوا کو ہوا جہاں 52 پُل اور 437 کلومیٹر سڑکیں تباہ ہوئیں، اس کے بعد آزاد جموں و کشمیر میں 94 پُل اور 201 کلومیٹر سڑکوں کو نقصان پہنچا۔14 گلگت بلتستان میں 87 پُل، بلوچستان میں تین اور اسلام آباد میں تین پُلوں کو نقصان پہنچا۔ سندھ میں پُلوں کو کوئی نقصان نہیں ہوا، لیکن سات کلومیٹر سڑکوں کے نقصان کی اطلاع ہے۔ اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری میں بھی تین پُلوں کو نقصان پہنچا ہے۔