خیبرپختونخوا کی حکومت نے صوبے میں دہشت گردی سے متاثرہ اقلیتی خاندانوں کی مالی معاونت کے لیے اہم اقدامات کا آغاز کر دیا ہے۔ محکمہ اوقاف و مذہبی امور خیبرپختونخوا نے 2013 سے اب تک کے تمام متاثرہ خاندانوں کا ڈیٹا جمع کرنے کے لیے صوبے کے تمام ڈپٹی کمشنرز کو باضابطہ طور پر ایک خط ارسال کیا ہے۔
فوکل پرسن برائے اقلیتی امور وزیر زادہ نے اس پیش رفت کے بارے میں بتایا کہ اس اقدام کا مقصد دہشت گردی سے متاثرہ اقلیتی خاندانوں کو ان کا حق دینا ہے۔ خط میں ڈپٹی کمشنرز کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ 10 دن کے اندر اندر مکمل ڈیٹا فراہم کریں۔ اس ڈیٹا کی بنیاد پر ستمبر کے آخر تک وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس بلایا جائے گا۔ اس اجلاس میں متاثرہ خاندانوں کے لیے مالی امداد کے فیصلے کیے جائیں گے۔ یہ کوشش بالخصوص پشاور کے آل سینٹ چرچ حملے کے شہداء اور متاثرین پر مرکوز ہے۔
وزیر زادہ نے مزید بتایا کہ دہشت گردی کے متاثرین کی بحالی کے لیے ایکٹ 2020 میں منظور ہوا تھا اور اس کے قواعد 2021 میں نافذ کیے گئے تھے۔ تاہم، بدقسمتی سے سابقہ حکومت کی تبدیلی اور طویل نگران حکومت کے دوران یہ عمل معطل رہا اور اسے مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا۔ موجودہ حکومت نے اس عمل کو دوبارہ فعال کر کے متاثرہ خاندانوں کو ریلیف فراہم کرنے کی سنجیدہ کوشش شروع کر دی ہے۔ یہ اقدام حکومت کی اقلیتی برادری کے حقوق کے تحفظ کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔