پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے خلاف جاری جدوجہد سیاسی تقسیم کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہے۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارے ‘دی ڈپلومیٹ’ کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت اور خیبر پختونخوا صوبائی حکومت کی انسدادِ دہشت گردی کی حکمت عملیوں میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ایک متفقہ قومی لائحہ عمل کی تشکیل میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان مختلف پالیسیوں نے سیاسی رہنماؤں کے لیے عسکریت پسندی کے بڑھتے ہوئے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی وضع کرنا مشکل بنا دیا ہے۔ خاص طور پر، 2021 میں افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے سرحد پار سے ہونے والے دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوا ہے، جس نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، ایک اہم اختلافی نکتہ تحریک طالبان پاکستان کے حوالے سے اختیار کی گئی حکمتِ عملی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی کی حکمت عملی تاریخی طور پر عسکریت پسند گروہوں کے خلاف فوجی کارروائیوں اور مذاکرات کے درمیان جھولتی رہی ہے۔”
مثال کے طور پر، 2018 سے 2022 تک عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں، پی ٹی آئی نے ٹی ٹی پی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے مذاکرات پر مبنی پالیسی اپنائی۔ عمران خان کے طریقہ کار میں بحالی کے عمل اور گروپ کے ساتھ بات چیت کے حصے کے طور پر ہزاروں ٹی ٹی پی عسکریت پسندوں کو پاکستان میں دوبارہ آباد کرنا شامل تھا۔ اس وقت، اسے صوبے میں تشدد کو کم کرنے کے لیے ایک عملی قدم کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔
تاہم، رپورٹ اس نقطہ نظر پر تنقید کو بھی اجاگر کرتی ہے کہ "پاکستان کے پالیسی ساز حلقوں میں ناقدین نے دلیل دی کہ یہ خیبر پختونخوا میں مقیم سیاسی گروہوں کی جانب سے افغان طالبان کو ٹی ٹی پی کے خلاف ان کا تعاون حاصل کرنے کے لیے خوش کرنے کی ایک کوشش بھی تھی۔ اس پالیسی کا مقصد کابل کے ساتھ خیر سگالی کو فروغ دینا تھا، لیکن یہ الٹا پڑ گئی، کیونکہ اس سے پاکستان واپس آنے والے عسکریت پسندوں کی حوصلہ افزائی ہوئی اور سرحد پار سے دراندازی کے لیے جگہ ملی۔”
موجودہ مسلم لیگ نون کی حکومت اور ریاستی اداروں نے مبینہ طور پر ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کو مسترد کر دیا ہے۔ تاہم، رپورٹ بتاتی ہے کہ پالیسی میں یہ تبدیلی پی ٹی آئی کی زیرِ قیادت خیبر پختونخوا حکومت نے پوری طرح قبول نہیں کی ہے، جس سے قومی انسدادِ دہشت گردی کی کوششیں مزید پیچیدہ ہو گئی ہیں۔ ‘دی ڈپلومیٹ’ کے مطابق، یہ متضاد نقطہ نظر پاکستان کی بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے خطرے سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کی صلاحیت کو نمایاں طور پر متاثر کر رہے ہیں۔