خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر کے گاؤں بیشونئ میں حالیہ بارشوں اور سیلابوں نے انسانی زندگی کو قیامت کا منظر بنا دیا ہے۔ دبئی میں مقیم 30 سالہ مسافر محمد ایاز یوسفزئی کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان کے 12 افراد سیلاب اور پہاڑی طوفان کی وجہ سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ایاز نے روتے ہوئے کہا کہ
‘مجھے فیس بک سے اس قیامت خیز خبر کی اطلاع ملی ، جس کے بعد میں نے اپنے رشتہ داروں کے موبائل پر فون کیے مگر وہ بند آ رہے تھے۔ مجھے ایسا لگا جیسے قیامت آ گئی ہو۔ میری بہن، تین بھانجے، چچا کے دو بیٹے، خالہ کا بیٹا، ایک چچی اور خالہ سب پانی میں بہہ گئے۔ جہاں چند افراد کی لاشیں اب بھی پانی کے اندر ہیں۔’
انہوں نے مزید کہا کہ گاؤں اس وقت صاف پانی، خوراک اور نوجوانوں کی شدید قلت کا سامنا کر رہا ہے۔
مقامی صحافی محبوب جبران کا کہنا ہے کہ تحصیل گدیزئی کے ملک پور یونین کونسل میں اب تک 157 لاشیں نکالی جا چکی ہیں۔ کچھ لاشوں کی شناخت کے بعد انہیں دفن کر دیا گیا ہے لیکن بہت سے خاندانوں کے تمام افراد لاپتہ ہیں اور درجنوں لاشیں اب بھی گاؤں کی مارکیٹ میں شناخت کے انتظار میں پڑی ہیں۔
گاؤں کے مکینوں کا کہنا ہے کہ گاؤں میں 200 سے زیادہ گھر تھے اور اب زیادہ تر پانی میں ڈوب چکے ہیں اور کئی جگہوں پر دریا کا پانی بہہ رہا ہے۔
صوبائی اسمبلی کے سابق رکن مولانا عبدالغفور نے اپنی فیس بک پوسٹ میں لکھا کہ انہوں نے صرف ایک رات میں 51 جنازے پڑھائے ہیں۔
ایک اور مکین، استاد عبدالواحد کا کہنا ہے کہ
"میرے خاندان کے آٹھ افراد کی میتیں میرے سامنے پڑی ہیں۔ گاؤں میں قیامت آئی ہوئی ہے۔ اتنی تباہی ہوئی ہے کہ نہ گھروں کی گنتی معلوم ہے اور نہ ہی لاشوں کی۔ انہوں نے بتایا کہ بچے، عورتیں، مرد، جانور اور گھر سب کچھ پانی میں بہہ گیا ہے۔”
دوسری جانب، پی ڈی ایم اے کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق، صوبے بھر میں گزشتہ 48 گھنٹوں کی بارشوں اور سیلابوں میں اب تک 210 افراد ہلاک اور 21 زخمی ہوئے ہیں۔ صرف بونیر میں شدید نقصانات کی وجہ سے حکومت نے وزیر اعلیٰ کی خصوصی ہدایت پر امداد کے لیے 15 کروڑ روپے کا اعلان کیا ہے۔