باجوڑ آپریشن دوسرا روز: مقامی آبادی کا احتجاج

خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع باجوڑ میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن بدھ کو دوسرے روز بھی جاری رہا جس میں متعدد عسکریت پسندوں کے مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔ دریں اثنا، مقامی لوگوں نے فوجی کارروائی کے خلاف احتجاج کیا جس میں شہری ہلاکتوں اور متعدد گھروں کو نقصان پہنچنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
یہ آپریشن گن شپ ہیلی کاپٹروں اور توپ خانے کی مدد سے کیا جا رہا ہے اور یہ باجوڑ کے 16 علاقوں میں کرفیو نافذ کرنے کے بعد شروع ہوا ہے۔ کرفیو باد سیہ تھرکو، اڑب، گٹ، آگرہ، خرچئی، دواگئی، کلان، لغارئی، کٹکوٹ، گلئی، نکھتر، زرائی، دمبرئی، اماناتو اور ذگئی میں نافذ کیا گیا تھا۔
خبر کدہ کو مقامی ذرائع نے بتایا کہ آپریشن میں کم از کم 11 عسکریت پسند مارے گئے ہیں، جبکہ پانچ سیکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ متعدد عام شہریوں کی ہلاکتوں کی بھی اطلاعات ہیں۔ رپورٹوں میں یہ بھی بتایا گیا کہ عسکریت پسند عام آبادی میں چھپے ہوئے تھے۔
ممبر قومی اسمبلی مبارک زیب خان اور سابق ایم این اے گل ظفر خان سمیت کئی مقامی رہنماؤں نے اس آپریشن کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ کرفیو نافذ کرنے سے پہلے مقامی لوگوں کو کافی اطلاع نہیں دی گئی۔ باجوڑ امن ایکشن کمیٹی کا ایک اجلاس ایم پی اے انوار زیب خان کی رہائش گاہ پر بھی منعقد ہوا جہاں باجوڑ کے رہائشیوں نے آپریشن فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے
گل ظفر خان نے کہا کہ مقامی لوگ "دونوں فریقوں” کے پاس جائیں گے اور ان سے تشدد بند کرنے کا مطالبہ کریں گے۔
عمری اور ماموند میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے، جس میں مقامی لوگوں نے کہا کہ عام شہریوں کو آپریشن سے شدید خطرہ لاحق ہے۔ مظاہرین نے آپریشن فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں