خیبرپختونخوا میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی لہر کے پیش نظر وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی جانب سے آج یعنی 24 جولائی وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور میں بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) سیاسی اختلافات کی نذر ہوگئی۔ اپوزیشن جماعتوں نے کانفرنس کو ‘نمائشی’ قرار دیتے ہوئے اس میں شرکت سے انکار کر دیا ہے، جس سے صوبائی سیاست میں تلخی مزید بڑھ گئی ہے۔
اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباداللہ نے اے پی سی کو محض ایک ‘سیاسی دکھاوا’ قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا موقف تھا کہ صوبائی حکومت کے فیصلے غیر سنجیدہ نوعیت کے ہیں اور حقیقی مسائل کا حل پارلیمانی فلور پر ہی ممکن ہے، نہ کہ ایسے ‘بے معنی اجلاسوں’ میں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام (ف)، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے مشترکہ طور پر اے پی سی میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر میاں افتخار حسین نے کانفرنس کو ‘بے مقصد مشق’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے اجلاسوں سے کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔
جمعیت علماء اسلام کے رہنما ایم پی اے محمد ریاض نے خبرکدہ کو بتایا کہ اپوزیشن نے خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ امن و امان کا مسئلہ حکومت کا پیدا کردہ ہے، جو اب اسے خود ہی ٹھیک کرے۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اپوزیشن کے بائیکاٹ پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو جماعتیں اس اہم کانفرنس میں شرکت نہیں کر رہیں، وہ دراصل صوبے کو درپیش سنگین مسائل سے لاتعلق ہیں۔ وزیراعلیٰ نے زور دیا کہ امن و امان کا قیام عوام کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں اور ان کی حکومت تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کے لیے پرعزم ہے۔
وزیراعلیٰ نے یہ بھی واضح کیا کہ خیبرپختونخوا میں کسی بھی جانب سے ڈرون حملہ ناقابل قبول ہے اور صوبائی حکومت ہر قیمت پر صوبے کے امن و امان کو یقینی بنائے گی۔