پاکستان میں مون سون کی طوفانی بارشوں کا سلسلہ جاری ہے جس سے ملک بھر میں ہلاکتوں کی تعداد نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق 252 ہو گئی ہے۔ بدھ کو مزید 10 اموات رپورٹ ہوئیں۔ بارشوں سے تباہی بڑے پیمانے پر ہوئی ہے لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب سے بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے اور ہزاروں افراد پھنسے ہوئے ہیں۔
سب سے زیادہ پنجاب متاثر ہوا ہے، جہاں 139 اموات اور 477 زخمی ہوئے ہیں۔ دیگر صوبوں کو بھی خاطر خواہ جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تازہ ترین عداد شمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں60 اموات، سندھ میں 24 اموات، بلوچستان میں 16 اموات، اسلام آباد میں 6 اموات، گلگت بلتستان میں 5 اموات جبکہ آزاد جموں و کشمیر میں 2 اموات ہوئیں ہیں ۔
زیادہ تر اموات مکانات گرنے سے ہوئیں جس کی تعداد 143 بتائی گئی ہے جبکہ سیلاب سے 41، ڈوبنے سے 36، آسمانی بجلی گرنے 13، کرنٹ لگنے 12، اور لینڈ سلائیڈنگ 4 سے بقیہ ہلاکتیں ہوئیں۔
بابوسر ٹاپ پر ایک خاص طور پر دلخراش واقعہ پیش آیا جہاں بادل پھٹنے سے تباہ کن سیلاب آیا۔ اس سیلاب سے پانچ افراد ہلاک ہوئے جن میں چار سیاح اور ڈاکٹر مشال شامل ہیں جنہوں نے ایک تین سالہ بچے کو بچانے کی کوشش کی تھی ۔ پندرہ دیگر لاپتہ ہیں۔ اس آفت نے شاہراہ قراقرم کو بھی بند کر دیا ہے جس سے متعدد مسافر پھنس گئے ہیں۔
پنجاب کے کئی شہروں بشمول جہلم، اٹک اور حافظ آباد میں شہری سیلاب نے اثر ڈالا ہے، جہاں دریاؤں کی سطح بلند ہونے کی وجہ سے رہائشیوں کو انخلا پر مجبور ہونا پڑا۔ لاہور میں 108 ملی میٹر بارش ہوئی جس سے نکاسی آب کا نظام درہم برہم ہو گیا۔ آزاد کشمیر میں بھی اسی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے، جہاں سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ نے کئی علاقوں میں رسائی میں خلل ڈالا ہے۔ اسلام آباد میں ایک باپ اور بیٹا سیلاب میں بہہ جانے کے بعد سے لاپتہ ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے تعزیت کا اظہار کیا ہے اور حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ امدادی کارروائیوں کو تیز کریں، شاہراہ قراقرم اور بابوسر-چلاس راستوں کو دوبارہ کھولنے پر توجہ دیں اور بے گھر افراد کے لیے پناہ گاہ اور خوراک فراہم کریں۔ اپنی مشکلات کے باوجود، بابوسر ٹھاک نالہ سیلاب سے متاثرہ دیامیر کے رہائشیوں نے امدادی کارروائیوں میں سرگرم حصہ لیا ہے۔