امریکی کانگریس اراکین نے انسانی حقوق کی پامالیوں اور بیرون ملک جبر پر پاکستان کو سخت انتباہ جاری کیا ہے جس میں مستقبل میں پابندیوں کے امکان کا بھی اشارہ دیا گیا ہے۔ یہ انتباہ منگل کو پاکستان کے انسانی حقوق کے ریکارڈ اور سیاسی صورتحال پر مرکوز ایک دو طرفہ کانگریشنل سماعت کے دوران سامنے آیا ہے۔
ریپبلکن رکن کانگریس کرسٹوفر اسمتھ جو ٹام لینٹوس ہیومن رائٹس کمیشن کے شریک چیئرمین ہیں، نے سختی سے تجویز کیا کہ امریکی حکومت بین الاقوامی مذہبی آزادی ایکٹ کے تحت پابندیاں عائد کر سکتی ہے۔ انہوں نے اس کو "مختلف عقائد کے لوگوں کے خلاف ہولناک اقدامات” قرار دیا۔ کانگریس ارکان نے ان قوانین کے تحت ماضی میں پابندیوں کی عدم موجودگی کو اجاگر کیا اور بتایا کہ یہ صرف بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو ایسے اقدامات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ڈیموکریٹک رکن کانگریس جیمز میک گورن نے ان خدشات کی بازگشت کی میساچوسٹس میں پاکستانی-امریکی کمیونٹی کی جانب سے امریکی حکومت سے آنے والے اشاروں کے بارے میں تشویش پر زور دیا ہے۔ دونوں قانون سازوں نے پاکستان کے ساتھ مسلسل رابطے کی ضرورت پر زور دیا لیکن انسانی حقوق کی صورتحال کی سنگینی کو نمایاں کیا ہے۔
سماعت کے دوران دی گئی شہادتوں میں بلوچستان میں جبر، مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے، توہین رسالت کے قوانین کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے اور پاکستان اور بیرون ملک دونوں جگہوں پر اختلاف رائے رکھنے والوں کو خاموش کرنے کے واقعات شامل تھے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بین لنڈن نے بلوچ کارکن ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کی قید، پی ٹی آئی کے حامیوں کے خلاف کریک ڈاؤن اور توہین رسالت کے قوانین کے تحت ملزمان کی ماورائے عدالت ہلاکتوں کو نمایاں کیا ہے۔ انہوں نے پاکستانی فوج پر تنقید کرنے والے امریکہ میں قائم یوٹیوب چینلز کو بلاک کرنے کی بھی مذمت کی ہے۔
پرسیئس اسٹریٹیجیز کے جیرڈ جینسر نے مسلسل رابطے کی وکالت کرتے ہوئے امریکی حکومت کی جانب سے بہتری کے لیے توقعات کو واضح طور پر بیان کرنے کی ضرورت پر زور دیا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان جیسے سیاسی قیدیوں کی رہائی بھی شامل ہے۔
سماعت میں صدر ٹرمپ اور پاکستان کے آرمی چیف کے درمیان حالیہ ملاقات کا بھی ذکر کیا گیا جس میں پی ٹی آئی رہنما ذلفی بخاری نے تجویز کیا کہ یہ ملاقات پاکستان میں نمایاں طاقت رکھنے والوں کے ساتھ شامل ہونے کی خواہش سے پیدا ہوئی ہے۔ افغانستان امپیکٹ نیٹ ورک کے صادق امینی نے امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات میں پاکستان کی مبینہ دوغلی پالیسی پر تنقید کی جس میں انہوں نے طالبان امن عمل کا حوالے دیا۔