ہیگ کی عالمی عدالت نے بھارت کا یکطرفہ سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اقدام مسترد کر دیا

| شائع شدہ |11:57

ہیگ میں ثالثی کی مستقل عدالت پی سی اے نے کہا ہے کہ بھارت کا یکطرفہ طور پر انڈس واٹر ٹریٹی کو معطل کرنا عدالت کے معاہدے کے تحت پیدا ہونے والے تنازعات کا فیصلہ کرنے کے اختیار پر اثر انداز نہیں ہوتا۔

"عدالت کے دائرہ اختیار پر ضمنی ایوارڈ” کا یہ فیصلہ پاکستان کے لیے ایک اہم کامیابی ہے۔ پی سی اے نے پایا کہ اس کا دائرہ اختیار ثالثی کی کارروائی شروع ہونے کے بعد کسی فریق کی طرف سے اٹھائے گئے کسی بھی یکطرفہ اقدام سے متاثر نہیں ہوتا۔ عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ اس کی منصفانہ اور موثر طریقے سے آگے بڑھنے کی ذمہ داری جاری ہے قطع نظر اس کے کہ بھارت کا یہ دعویٰ ہو کہ اس نے معاہدے کو "معطل” کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ متعلقہ کارروائی میں مقرر کیے گئے غیر جانبدار ماہر پر بھی لاگو ہوتا ہے۔

پی اے سی نے اپنے فیصلے کی بنیاد سندھ طاس معاہدہ کے آرٹیکل XII(4) پر رکھی ہے، جو یہ واضح کرتا ہے کہ یہ معاہدہ اس وقت تک نافذ العمل رہتا ہے جب تک کہ دونوں فریق اسے رسمی معاہدے کے ذریعے ختم کرنے پر متفق نہ ہوں۔ عدالت نے معاہدے کے موروثی تنازعہ حل کرنے کے طریقہ کار کو نمایاں کرتے ہوئے کہا کہ ایک فریق کو یکطرفہ طور پر ثالثی کو نظر انداز کرنے کی اجازت دینا معاہدے کے مقصد کو کمزور کر دے گا۔
بھارت کا یہ دعویٰ کہ وہ کارروائی سے دستبردار ہو سکتا ہے اور ثالثی کو روک سکتا ہے، پی سی اے نے مسترد کر دیا جس نے اپنے دائرہ اختیار کا تعین کرنے کے اپنے اختیار کی دوبارہ تصدیق کی ہے۔ عدالت نے کہا کہ ایک بار جب ثالثی شروع ہو جاتی ہے تو اسے یکطرفہ طور پر منقطع نہیں کیا جا سکتا ہے۔
یہ فیصلہ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں کشن گنگا اور رتلے ہائیڈرو الیکٹرک منصوبوں سے متعلق ہے۔ پاکستان نے 2016 میں ثالثی کی کارروائی شروع کی تھی، جس میں ان منصوبوں کے بعض ڈیزائن عناصر کو چیلنج کیا گیا تھا۔ اگرچہ بھارت نے ابتدائی طور پر ایک غیر جانبدار ماہر کی رائے طلب کی تھی، پی سی اے کا یہ فیصلہ پاکستان کی طرف سے اٹھائے گئے تنازعات کو حل کرنے کی اپنی اہلیت کی تصدیق کرتا ہے۔
پاکستان نے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے اس بات کی تصدیق قرار دیا کہ بھارت یکطرفہ طور پر معاہدے یا ثالثی کے عمل سے بچ نہیں سکتا ہے۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ تمام بقایا مسائل بشمول سندھ طاس معاہدے پر بامعنی مذاکرات کی واپسی کی امید ظاہر کی ہے۔

تاہم، بھارت نے پی سی اے کے ضمنی ایوارڈ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ اس نے کبھی بھی عدالت کی قانونی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا اور اس کے اقدامات کو غیر قانونی اور باطل قرار دیتا ہے۔ بھارت کا مؤقف ہے کہ معاہدے کو معطل کرنے سے وہ اپنی ذمہ داریوں کا پابند نہیں رہتا اور پی سی اے کو اس کے اقدامات کا جائزہ لینے کا کوئی دائرہ اختیار نہیں ہے۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں