حربیار مری کا اسرائیل سے بغلگیر ہونا: بلوچ مقصد سے غداری یا سوچا سمجھا جوکھم؟

| شائع شدہ |18:08

تحریر: آمنہ فارس

فری بلوچستان موومنٹ کے رہنما حربیار مری نے جب ایران پر اسرائیل کے فوجی حملوں کی کھلے عام حمایت کی تو شاید ان کا مقصد عالمی توجہ حاصل کرنا تھا لیکن بلوچستان میں اس پر حیرانی اور خاموش غصے کا اظہار کیا گیا۔ مری جس چیز کو علاقائی دشمن کے خلاف مزاحمت سمجھتے ہیں، بہت سے لوگ اسے ان لوگوں کی توہین سمجھتے ہیں۔وہ بلوچ کے نام کو ایک ایسی ریاست کی حمایت کے لیے استعمال کر رہے ہیں جو ہر روز فلسطینیوں کا قتل عام کر رہی ہے۔ یہ آزادی نہیں ہے۔ یہ مزاحمت نہیں ہے بلکہ یہ بکاؤ پن ہے۔
آپ اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑے نہیں ہو سکتے اور پھر مڑ کر ایک ایسے ملک کی تعریف نہیں کر سکتے جو ہسپتالوں پر بمباری کر رہا ہے، بچوں کو بھوکا مار رہا ہے اور غزہ کو قبرستان میں بدل رہا ہے۔ آپ کوئٹہ میں ظلم کی بات نہیں کر سکتے اور رفح میں اس پر تالیاں نہیں بجا سکتے۔

جیسا کہ سیمون دی بیوویر نے کہا تھا کہ "ظالم اتنا مضبوط نہ ہوتا اگر اسے مظلوموں میں سے ہمدرد نہ ملتے۔”
یہ صرف ایران یا پاکستان کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ ایک گہرے کھیل کا حصہ ہے جس میں تل ابیب، دہلی اور لندن کے بورڈ روم شامل ہیں، نہ کہ تربت کی دھول بھری گلیاں جہاں بلوچ جدوجہد کو ہائی جیک کیا جا رہا ہے اور اسے کسی اور کی جنگ میں ایک آلہ میں تبدیل کیا جا رہا ہے جو اسے کبھی نہیں ہونا چاہیے تھا۔

فری بلوچستان موومنٹ حربیار مری کی قیادت میں کئی سالوں سے بھٹک رہی ہے۔ بے آوازوں کی آواز سے لے کر غیر ملکی مفادات کا مہرہ بننے تک، اسرائیل کو ان کا کھلے عام گلے لگانا، اور ایک ایسے وقت میں جب دنیا بھر کے مسلمان غزہ میں ہونے والے قتل عام پر سوگ منا رہے ہیں، یہ مزاحمت نہیں ہے یہ ایک واضح غداری ہے۔ اب یہ واضح ہے کہ جب نفرت آپ کو اندھا کر دیتی ہے، تو آپ معصوم لوگوں کی تکلیف بھی نہیں دیکھ سکتے۔ آپ حقیقی دشمن کی پہچان کھو دیتے ہیں۔
تمام بلوچ رہنما ایک ہی صفحے پر نہیں ہیں اور یہ بات اہمیت رکھتی ہے۔ اختر مینگل نے غیر ملکی بموں پر خوشی کا اظہار نہیں کیا۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اسرائیل کی حمایت میں کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔ درحقیقت ان کی خاموشی بہت کچھ کہہ رہی ہے، وہ جانتے ہیں کہ یہ خطرناک میدان ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ایک گاؤں کو جلا کر دوسرے کے لیے توجہ حاصل نہیں کی جا سکتی ہے۔ ان کے ریاست کے ساتھ اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن انہوں نے اپنی انسانیت کا احساس نہیں کھویا ہے۔ لندن میں ہزاروں میل دور بیٹھ کر غیر ملکی دفاتر میں بیٹھک سے جنگ کی حقیقی قیمت سے لاتعلق رہ کر ایک سائیڈ لینا آسان ہے۔ بلوچ جو اپنے لاپتہ بیٹوں کو دفن کر رہے ہیں، جو گولیوں سے بچ رہے ہیں وہ ابھی بھی امید پر قائم ہیں، انہوں نے حربیار سے کچھ ایسا نہیں مانگا ہے۔ بلوچوں نے کبھی بھی ان کو اپنی ترجمانی کا نہیں کہا ہے۔

واضح رہے کہ ہندوستان، اسرائیل اور حربیار مری کا یہ اتحاد اب کوئی سازشی نظریہ نہیں ہے۔ یہ ہمارے سامنے ہو رہا ہے اور جو لوگ نقصان اٹھا رہے ہیں وہ صرف فلسطینی نہیں ہیں بلکہ یہ بلوچ تحریک کی روح ہے۔
ان کا بیان آزادی کے بارے میں نہیں تھا۔ یہ اشتعال انگیزی کے بارے میں تھا۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ کس آگ سے کھیل رہے ہیں۔ یہ صرف پاکستان مخالف یا ایران مخالف محاذ آرائی نہیں ہے بلکہ یہ مسلمانوں کو تقسیم کرنے، فرقہ وارانہ نفرت کو بھڑکانے، اور خطے کو جلتے رہنے دینے کی ایک وسیع مہم کا حصہ ہے۔ یہ لوگ صرف ریاستوں کے دشمن نہیں ہیں بلکہ یہ اتحاد، انصاف اور خود اسلام کے دشمن ہیں۔

یہ اب پوچھنے کا وقت ہے کہ وہ واقعی کس کے لیے بول رہے ہیں؟ بلوچ کے لیے؟ یا ان لوگوں کے لیے جو انہیں مغربی دارالحکومتوں میں مائیکروفون تھما رہے ہیں؟
انہوں نے شاید اسرائیلی میڈیا سے تعریف حاصل کی ہو، شاید تھنک ٹینکس میں چند ہینڈ شیکس بھی ملے ہوں لیکن پنجگور، گوادر اور کوئٹہ میں لوگ دیکھ رہے ہیں اور بخوبی اندازہ ہو رہا ہے۔ بلوچ سمجھتے ہیں کہ جب کوئی مسلمانوں پر گرنے والے بموں پر تالیاں بجاتا ہے اور اسے ترقی کہتا ہے تو وہ ہمارا رہنما نہیں ہے وہ ایک بوجھ ہے۔
بلوچ جدوجہد اس سے بہتر کی مستحق ہے۔ یہ ایمانداری، وضاحت اور سب سے بڑھ کر وقار کی مستحق ہے۔ اگر حربیار مری ایک آزادی پسند بننا چاہتے ہیں تو انہیں مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہو کر شروعات کرنی چاہیے، نہ کہ ظالموں کے ساتھ۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں