یلداحکیم برطانیہ کا ارنب گوسوامی

پشاور میں ٹی وی سکرین کے سامنے بیٹھا میں فاکس نیوز کو دیکھ رہا تھا۔ فلسطین تنازغہ میں مغربی میڈیا اپنی کریڈیبیلٹی کھو چکا ہے لیکن امریکہ میں حالیہ مظاہروں کی کوریج دیکھنے کے لیئے ہمیں پھر بھی غیر ملکی چینل دیکھنے پڑے۔ یہی وہ وقت تھا جب افغان آسٹریلوی صحافی یلدا حکیم پر نظر پڑی۔وہ سکائی نیوز پر اپنے شو دی ورلڈ ودھ یلداحکیم پر پاکستانی سینیٹر شیری رحمان کا انٹرویو کر رہی تھی۔ یلداحکیم چونکہ خود افغان ہیں جو اسی کی دہائی میں روسی جارحیت کے نتیجہ میں ایک مہاجر کی حیثیت سے پہلے پاکستان آئی اور پھر آسٹریلیا جا کر آسٹریلوی شہریت اختیار کر کی۔ گماں تھا کہ اس خطے میں عسکریت پسندی کی تاریخ سے واقف یہ صحافی ڈھنگ کے سوال کرے گی اور کچھ نیا سننے کو ملے گا۔ گزشتہ دو دہائیوں سے بھی زیادہ اس جنگ کو رپورٹ کرتے ہوئے میں نے رابرٹ فسک، اورلا گورین اوراسٹریلیا کے ہی نوجوان صحافی انتھونی لوینسٹین کو قریب سے دیکھا بلکہ کام کا تجربہ بھی حاصل کیا۔ لیکن جب یہ انٹرویو دیکھا تو ایسے لگا کہ ایک وکیل ایک ملزمہ پر جرح کر رہا ہے۔ جیسے ہندوستانی فلموں میں ہوتا ہے۔ کٹھرے میں کھڑے شخص کو بولنے نہیں دیا جاتا نا اس کو سنا جاتا ہے تاکہ کورٹ روم میں بیٹھے تماشائی اور جج کے سامنے کٹھرے میں کھڑا شخص بس ایک لفظ بولے اور وکیل جج کی طرف فاتحانہ انداز سے مڑتے ہوئے بولے جج صاحب ثابت ہوا کہ قتل اسی نے کیا ہے یہ ایک اوپن اینڈ شٹ کیس ہے۔ مطلب ٹی وی پر گٹر جرنلزم کی انتہا دیکھنی ہو تو صحافت کے طلباء کو یہ انٹرویو نصاب میں دکھانی چاہیئے کہ وہ سب کچھ جو اس انٹرویو میں یلدا حکیم نے کیا وہ نہیں کرنا چاہیئے۔ لیکن ذرا رکیئے یہ انداز دیکھا دیکھا سا لگتا ہے۔ پھر یاد آیا کہ ہندوستانی اینکر یہی تو کررہا ہے۔ تب کڑیاں ملنے لگیں۔ ایک جگہ پر یلدا حکیم نے کہا کہ پاکستانی وزیردفاع خواجہ آصف نے خود اسے بتایا کہ وہ عسکریت پسندی کی پشت پناہی کرتے رہے، تربیت دیتے رہے اور فنڈنگ کرتے رہے۔ حالانکہ ایسا قطعا نہیں تھا۔وہ دراصل یلدا حکیم کو یاد دلا رہا تھا کہ جب بچپن میں روس کی جارحیت سے بھاگ کر اس نے پاکستان میں پناہ لی اور جب امریکہ سمیت پورا مغرب روس کے خلاف جہاد کو پراکسی کے طور پر استعمال کر رہا تھا تب پاکستان نے بھی اس گند میں اپنا کردار ادا کیا۔یہی وہ وقت تھا جب القاعدہ کا بانی اسامہ بن لادن اپنے ساتھی ڈاکٹر ایمن اظواہری کے ساتھ مل کر امریکی ریاستوں اور مغربی شہروں میں اسی دہشت گردی کے لیئے چندہ جمع کر رہے تھے اور حقانی نیٹ ورک کے بانی مونا جلال الدین حقانی سمیت ان تمام دہشت گردوں کو امریکی صدور سٹیٹ گیسٹ کے طور پر رکھتے۔ موجودہ داعش کے بانی ابومصعب الزرقاوی تو اسی امریکی مغربی دہشت گرد فلسفے سے متاثر ہو کر پاکستان پہنچے تھے۔اگر یلدا حکیم کو یہ نہیں معلوم تو “چارلی ولسن وار” کے نام سے کتاب پڑھ لے۔ بلکہ یوٹیوب پر امریکی سیکرٹری خارجہ ہیلری کلنٹن کا بیان موجود ہے کہ جس میں وہ خود کہتی ہیں کہ انہوں نے ان دہشت گرد تنظیموں کو پالا، ان کی تربیت کی، ان کو اسلحہ دیا اور ان کی فنڈنگ کی۔

ایک جگہ پر کسی نامعلوم سیکیورٹی، انٹیلیجنس تجزیہ کار کا حوالہ دیتے ہوئے یلدا حکیم نے پوچھا کہ ۳۱۳ بریگیڈ کے نام سے اس وقت ایک تنظیم القاعدہ کے نیچھے پاکستان میں کام کر رہی ہے۔ گو کہ سینیٹر شیری رحمان نے بھی اس بات کو نوٹ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس تجزیہ کار کو نہیں جانتی لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ ہندوستان کے بیانیئے کو بڑھا رہا ہے۔ دوسری جانب یہ سوال مجھے کئی دہائیاں پیچھے لے گیا۔ یہ تنظیم ایک کشمیری جنگجو الیاس کشمیری نے قائم کی تھی۔ الیاس کشمیری وہی جنگجو دئشت گرد تھا جسے امریکہ اور مغرب نے افغانستان میں سپورٹ کیا۔ روسی انخلاء کے بعد امریکہ تو چلا گیا لیکن یہ عناصر اس خطے میں موجود رہے۔ اس نے کشمیر جہاد کا راستہ اپنایا۔ ۲۰۹۴ء میں ہندوستان نے اس کو گرفتار کیا اور کئی سالوں تک تہاڑ جیل میں رکھا۔ پھر ایک پراسرار انداز میں ہندوستان نے اس کو چھوڑا۔ امید ہے کہ یلداحکیم نہیں لیکن کوئی دوسرا مغربی صحافی ہندوستان سے یہ سوال ضرور کرے کہ اتنے بڑے دہشت گرد کو ہندوستان نے کیسے آزاد چھوڑا۔ چونکہ گیارہ ستمبر کے بعد امریکہ اور ان کے اتحادیوں کو ایک نئے جنگ کی ضرورت تھی اس لیئے وہ پاکستان پہنچ کر پاکستان کے خلاف لڑنے لگا۔ اس نے پاکستان کے خلاف ۳۱۳ بریگیڈ کی جانب سے کئی بڑی کاروائیاں کیں۔اس دہشت گرد کا نشانہ براہ راست پاکستان کی سیکیورٹی تنصیات اور سیکیورٹی اہلکار بنے۔ یہاں تک پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف پر خودکش حملوں میں بھی ملوث رہا۔ اس نے سب سے زیادہ پاکستانیو کو نشانہ بنایا نا کہ کسی اور ملک کو کم ازکم یلدا حکیم کو اس حوالہ سے ہوم ورک کرنا چاہیئے تھا۔ الیاس کشمیری ۲۰۱۱ء میں یعنی ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصہ قبل جنوبی وزیرستان میں مارا جا چکا ہے اور اس کے ساتھ ہی ۳۱۳ بریکیڈ کا بھی ۲۰۱۱ء میں ہی خاتمہ ہوگیا۔ لیکن چونکہ ارناب گوسوامی، ہندوستانی تجزیہ کاروں اور بالی ووڈ میں شاید الیاس کشمیری آج بھی زندہ ہے، ۳۱۳ بریگیڈ اس وقت بھی فعال ہے اور القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن آج بھی جنگ کی قیادت کررہا ہے تو اس پر سوائے افسوس کے اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ ایک جگہ پر تو یلداحکیم یہاں تک کہہ گئی کہ ہندوستانی حملوں میں مسعود اظہر کے خاندان والے مارے گئے۔ گویا کسی مطلوبہ شخص کے لیئے اس کے پورے خاندان کو مارا جا سکتا ہے۔ یہ کہتے ہوئے اس کے چہرے پر ندامت تک نہیں تھی۔ سوال یہ بنتا تھا کہ اس حملے میں ہندوستان نے کسی بھی عسکریت پسند کی ہلاکت ثابت نہیں کی تو گویا مرنے والے معصوم ہوئے اس پر کیا پاکستان ہندوستان کے خلاف ان جنگی جرائم کا مقدمہ کرے گا؟ حالانکہ سینیٹر شیری رحمان نے بھی کہا کہ ہم نے تو ہندوستانی فوج کے اہلکار کھلبوشن یادیو کو ثبوت کے ہمراہ پکڑ لیا ہے تو کیا ہم ہندوستان پر حملہ کرکے اس کے رشتہ داروں کو مار دیں۔ ہمارے ہاں ہندوستان روز دہشت گردی کرتا ہے تو کیا ہم ہندوستان پر چڑھائی کریں۔ دراصل یلدا حکیم نے ہندوستانی نیوزچینل کے نیوزروم میں جاری ٹینکوں، توپوں، جہازوں اور میزائیل کی موجودگی میں جاری جنگ کو دیکھ لیا تھا جو بالی ووڈ کے کسی فلم کی طرح لاہور کے ساحل سمندر پر بم برسا رہا تھا۔ جس میں دعوے کیئے جارہے تھے کہ کراچی، اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ کروما جرنلزم نے نیوز روم کو فلم سٹوڈیو میں بدل دیا ہے۔ خیر سکائی نیوز کی اپنی حالت بھی کچھ اچھی نہیں خود معروف آسٹریلوی جان پلجر نے اپنی ایک دستاویزی فلم میں اس کو کارٹون جرنلزم کے طور پر دکھایا ہے۔ جب سکائی نیوز چیخ چیخ کر بتا رہا تھا کہ عراق کے پاس بڑی تباہی والے نیوکلیئر ہتھیار ہیں۔ عراق پر چڑھائی کر دی۔ عراق کو قبرستان بنا دیا اور عراق کو ایک مستقل تباہی میں دھکیل کر کہا کہ غلطی ہوگئی عراق کے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہیں۔

اینکر یلداحکیم کو یاد رکھنا چاہیئے کہ اس کے پاس جس ملک کی شہریت ہے یعنی آسٹریلیا اس کی فوج نے چار سالہ انکوائری کے بعد ۲۰۲۰ء میں افغانستان میں اپنے جنگی جرائم پر باقاعدہ معافی مانگی ہے۔ لیکن چونکہ یلداحکیم اور ارناب گوسوامی جیسے لوگ ہندوتوا کے نظریہ میں بہہ کر صحافت کو بالی ووڈ بنا چکے ہیں ایسے میں ان سے کچھ بھی توقع رکھنا محال ہے۔

متعلقہ خبریں

مزید پڑھیں